ایک کی چوکھٹ پر حاضری دوسرے کو ہتھکڑیاں: کپتان صاحب! یہ ماجرا کیا ہے؟


یوں تو نئے پاکستان میں عجیب و غریب واقعات و سانحات رونما ہو رہے ہیں جن کو دیکھ کر گاہے نئے پاکستان کے بانی کی بے بسی اور بے چارگی پر رحم آتا ہے اور گاہے مظلوم و مجبور پاکستانیوں کی مفلو ک الحالی اور حالت زار پر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ جناب عمران خان نے نئے پاکستان کی بنیاد رکھتے وقت عوام سے وعدہ کیا تھا کہ نئے پاکستان میں دودھ و شہد کی نہریں بہنے کے علاوہ عدل اجتماعی اور سماجی مساوات کا یہ عالم ہو گا کہ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پئیں گے۔

انصاف کا بول بالا اور ظلم و جبر کا منہ کالا ہو گا۔ کشمیر سے کراچی تک شب دیجور میں سونے چاندی سے لدھی پھندی عورت بغیر کسی خوف و خطر چلی جائے گی اور کوئی مائی کا لال اسے میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کر سکے گا۔ ملک کی معیشت اس طرح بام عروج پر پہنچے گی اور خوشحالی کا ایسا دور دورہ ہو گا کہ زکات لینے والا کوئی نہیں ہو گا۔ اللہ کے فضل سے اب نواز شریف وزارت عظمٰی سے معزول ہونے کے بعد تا حیات نا اہل ہو کر جیل میں اپنی زندگی کے بچے کھچے دن کاٹ رہا ہے اور چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کی جگہ صدیقین، صا لحین اور مجاہدین کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔

نئے پاکستان کا حال مگر پہلے کے مقابلے میں مزید پتلا ہو رہا ہے۔ ملک کی معیشت، بد انتظامی، اقربا پروری، بے روزگاری، کرپشن، روپے کی گرتی قیمت، ترقی کی کم ہوتی شرح، مہنگائی، بد امنی اور نفسا نفسی و افراتفری کی نا مختتم لہر دیکھ کر ہر درد مند آدمی متفکر ہے۔ یہ حالات بھی کچھ کم پریشان کن نہیں ہیں لیکن نئے پاکستان میں سب سے زیادہ جس جنس کی درگت بنی ہے وہ عدل و انصاف ہے جو نئے پاکستان والوں اور عمران خان کی سیاسی جدوجہد کا بنیادی اور مرکزی نعرہ تھا۔

عمران خان آج بھی عدل و انصاف کے دوہرے معیار کو قوموں اور تہذیبوں کی تباہی کا سب سے بڑا سبب قرار دیتے ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ جب میزان عدل کو ٹھیک کرنے کا وقت آیا تو وہ بری طرح ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ علیمہ خان اور پی ٹی آئی کے نامی گرامی لوگوں کی کرپشن پر ان کے سمجھوتے کو سیاسی مجبوری کا نام دے بھی دیا جائے تو وہ وطن عزیز کے ان مقتولوں کے مقدمات میں دوہرے معیار کا کیا جواب دیں گے جن میں ایک طرف سانحہء ساہیوال کے شہدا ہیں تو دوسری طرف لورالئی میں حساس اداروں کے ہاتھوں جان کی بازی ہارنے والا پروفیسر ابراہیم ارمان لونی ہے۔

اقتدار ملنے سے قبل تو عمران خان منظور پشتین اور ان کے حامیوں کے نقطہء نظر کو ببانگ دہل درست قرار دیتے تھے مگر آج منظور کا ایک حامی جب ریاستی دہشت گردی کا شکار بنا ہے تو انصاف کا یہ علمبردار اس کے ناحق قتل پر تعزیت کا ایک رسمی جملہ بھی نہیں بول سکا اور نہ ہی انسانی ہمدردی کی پیکر اور حساس خاتون اول نے ارمان کی جوں سال بیوہ، معصوم بچوں اور عمر رسیدہ ماں کو دیکھ کر کوئی آہِ سرد بھری جو کتوں کی تکلیف دیکھ کر نمدیدہ ہو جاتی ہیں۔

چلیں مان لیتے ہیں کہ وزیر عظم کے لیے یہ کام بھی بہت کٹھن ہے کیونکہ جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں ان کا نظریہ اقتدار عطا کرنے والوں کے نظریے سے ہم آنگ ہو گیا ہے اور ہمارے ہاں عقیدہ ہو یا نظریہ اس کی ترویج اور دفاع دلیل کے بجائے غلیل اور حوالے کے بجائے گالی او ر گولی سے کرنے کی روایت خاصی پختہ ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ بہت ”حساس“ معاملہ ہے جس کے سامنے کپتان بے بس ہیں مگر کیا وہ عدل و انصاف کے معیار کو یکساں دکھانے کے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ ظالم و جابر حکومت اور اصل حکمرانوں کے روبرو کلمہء حق بلند کرنے والے صحافیوں کے ساتھ علامتی طور پر ہی سہی ایک جیسا سلوک روا رکھنے کی کوشش کریں۔

کپتان صاحب! ایک صحافی کے اظہار رائے کی آزادی کا اس قدر احترام و اہتمام کہ آپ مع اپنے نو رتنوں کے اس کی چوکھٹ پر حاضری دینے پہنچ جائیں اور دوسرے صحافی کو اسی جرم کی سزا یوں دی جائے کہ اسے ہتھکڑیوں میں جکڑ کر پابند سلاسل کر دیا جائے۔ ؟ آپ اور آپ کے ”نظریاتیوں“ کے عدل و انصاف کے ایسے مظاہروں پر ہم جیسے مصلحت کوش، جذبہء حب الوطنی سے سرشار اور زمینی حقائق سے آشنا عامی تو آپ کی انصاف پسندی اور عدل پروری کے قائل ہو کر آپ کی تعریف میں رطب اللسان ہو جائیں گے مگر کیا آپ نے لمحے بھر کو بھی سوچا کہ دنیا اس پرکیا کہے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).