قلم کی روشنی


ادب سے لگاؤ رکھنے والے اچھی کتابوں کے منتظر ہمیشہ رہتے ہیں اور کوئی بھی منفرد کتاب و رسالہ ہاتھ لگنے پر، جلد از جلد، اُس سے سیراب ہونا چاہتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی تجربہ میرے ساتھ ”قلم کی روشنی“ موصول ہونے پر ہوا۔ اردو ادب کی عظیم مصنفہ محترمہ بانو قُدسیہ کی زیرِ سر پرستی وجود میں آنے والے ادبی مجلے ”قلم کی روشنی“ سے میرا پہلا تعلق شاید اسی لیے بنا کہ بانو آپا سے دلی عقیدت رکھنے والی ایک ادنٰی مرید میں بھی ہوں۔ اس مجلہ کی بانی و چیف ایڈیٹر (مرحومہ) رفعت خان اور موجودہ مولفِ اعلٰی (ناول و افسانہ نگار) جناب محمود ظفر اقبال ہاشمی ہیں۔

اس مجلہ کے شمارہ ( 8 ) جولائی، اگست، ستمبر 2018 کو سوشل میڈیا پر کئی بار دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں اس کے کچھ مشمولات دل کے قریب محسوس ہوئے، مارے شوق کے سال بھر کی ممبر شپ کی درخواست بھیجی۔ بس، ہاتھ میں آنے کی دیر تھی کہ اتنی مصروفیت کے دور میں بھی میں اسے خود سے دُور نہ رکھ سکی۔

فہرست میں اداریہ، نثر، مائیکروفکشن، ہلالِ روزنِ نثر، سخنوری، تنقید، سفر نامے، انٹرویوز سمیت دیگر سیکشنز دیکھنے کو ملے۔ سخنوری سے زیادہ لگاؤ رکھنے کے باعث پڑھنا شروع ہی کیا کہ خیال آیا پہلے با ادب طریقے سے ”اداریہ“ پڑھ لیا جائے، جس میں اچھی تحاریر لکھنے پر کئی انعامی سلسلے شامل دیکھ کر حیرانی و مسرت کا دورگزرا، جن کا سب سے میٹھا انعام، نقد کے علاوہ کُتب رکھا گیا تھا۔ پھر ایک اور خوشگوار لمحہ آیا، اگلے صفحات پر ’سورۃ قریش‘ تفسیر و مقصودِ کلام کے ساتھ پڑھنے کو ملی۔ وہ دور یاد آگیا جب ہر ادبی مجلہ، قاری کی حقیقی تربیت کی ذمہ داریاں بھی خوش اسلوبی سے نبھایا کرتا تھا۔ ’احادیثِ مبارکہ‘ کے سیکشن سے دل و نگاہ منور ہوئے۔

اسی رُو میں بہتے ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحل کی حمد ِ باری تعالٰی ’فہم و ادراک تھک گئے مولا / تُو سمجھ سے ہے اس قدر بالا‘ اور مظفر وارثی کی مشہورِ زمانہ نعتِ پاک ’نہ مرے سُخن کو سُخن کہو ”نے جیسے روح جکڑ لی۔ اس سے اگلا حصہ نثر (افسانہ) تھا، جسے (سُستی اور طوالت کے خوف سے ) اگنور کرنے کی کوشش کرتے، خود کو بڑی مشکل سے محمد جاوید انور کے افسانے“ بارِ زیست ”سے پڑھنے پر آمادہ کیا۔ ایمان کی کہوں تو بس آگے خود کو روک نہ سکی۔

افسانے تھے یا کوئی زندگی کے نادیدہ صفحات سے لپٹے خوں رنگ چھینٹے! دل، ایک کے بعد ایک شاندار کاوش کو دہراتا رہا اور سب سے بڑھ کر یہ بات خود پہ آشکار ہوئی کہ میں نئی نسل کے اتنے اعلیٰ تخلیق کاروں سے کتنی بے خبر تھی۔ کس کس کا نام لوں، اسما حسن، عبدالشکور جاذب، سخاوت حسین، مریم جہانگیر، ناہید اختر بلوچ، معافیہ شیخ، شازیہ نایاب، حرا قریشی، کوثر ناز و دیگر۔ انہیں پڑھ کر دو چیزیں شئیر کرنا لازمی سمجھتی ہوں، بطور قاری مجھے اتنے اچھے افسانے ایک ساتھ پڑھنے کو کہیں اور نہیں ملے اور دوسرا، میں نے شروع کرنے سے پہلے ان کاوشات کو (آج کل کی بے پرواہ نئی نسل کے جیسا) ”ہلکا پُھلکا“ تصور کیا۔

لیکن یکے بعد دیگرے ایسے افسانوں نے جیسے میری آنکھیں کھول دیں۔ ہر افسانہ نادیدہ حسیات، مسائلِ زیست، نفسیات اور سب سے کم لکھے جانے والے مگر اہم معاملات ( خصوصاَ ان علاقوں کی حقیقی تصویر تھا جنہیں حکومت و دیگر ذمہ دارانِ وقت سُننا بھی پسند نہیں کرتے! ) کا کُھلا خط تھا۔ یقیناَ سلیکشن کے لیے مولفِ اعلیٰ و اراکینِ مجلسِ مشاورت قابلِ تحسین ٹھہرتے ہیں۔

فکشن کی شاخ، مائیکرو فکشن میں ن۔ م، کشف بلوچ، سیدہ آیت و دیگر کی مختصر مگر پُر اثر تخلیقات نے ”قلم کی روشنی“ کی لو کو مزید روشن کیا۔ انعامی سلسلے میں انعامات، اِس بار، سارا احمد ( جو میری پسندیدہ ینگ فکشن رائٹر بھی ہیں ) کے افسانے ”کاف قیامت“ اور کشف بلوچ کے، ”درد کے پیوند“ کے حصے آئے۔ آپ دونوں کے لیے مبارک باد! مزید اِس میں بانو قدسیہ آپا کا شاہکار افسانہ ”ابنِ آدم“ شامل کیا گیا ہے جس نے ضمیر کو ایک بار پھر اپنے شفاف آئینے ایسے جملوں سے جھنجوڑ دیا۔ پہلا سیکشن مشتاق احمد یوسفی کے فکاہیہ ادب میں سے ”چارپائی اور کلچر“ اور محمد ہشام کے سفر نامے ”کمراٹ کی وادی میرے اندر تھی“ جیسے رنگوں پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

مجلہ ”قلم کی روشنی“ کا دوسرا سیکشن ”سخنوری“ ایک جست میں کئی بار رُک کر پڑھا گیا کہ یہ محسوسات اور تصورات کا جہاں تھا۔ اس حصے میں میثم علی آغا، قندیل بدر کی منتخب نظمیں و غزلیں، جناب ظفر اقبال ہاشمی کے ناول ’میں جناح کا وارث ہوں‘ سے قابلِ درس اقتباسات اور قراۃالعین کی دو نظموں کے علاوہ دیگر انتخابات بھی شامل ہیں۔

کچھ حصہ ملاحظہ ہو :
” یہیں کہیں راستے میں چلتے بھری جوانی میں مارے جائیں
مرے قبیلے کے لوگ شاید نئی کہانی میں مارے جائیں
بتایا جائے کہ اُن کے کتبوں پہ کون سا جُرم لکھنا ہوگا
جو لوگ عہدِ زبان بندی میں خوش بیانی میں مارے جائیں ”
(میثم علی آغا)

”ستیم شیوم سُندرم“ جیسی خوبصورت نظموں کے علاوہ ”قندیل بدر“ کی پیاری غزلوں میں سے اُن کے کُچھ اشعار :
” میں نے پہلی بار لکھی ایسی عورت کی کتھا
جس پہ آدم، قیس اور رومی سا پیغمبر کُھلا
مجھ پہ بھی اُترے صحیفے وید گیتا اور زبور
مجھ پہ بھی خُسرو، کبیر و غالب و گوہر کُھلا ”

علاوہ ازیں، قراۃالعین شعیب کی، محترم نصیر احمد ناصر پر لکھی ”سُفید بالوں والا بُدھا“ اور ”نظم کو اغوا کرنا آسان نہیں“ جیسی عجب عقیدت بھری سچی نظمیں ہیں :
” تُم ہو کہ پھر بھی لبالب بھرے رہتے ہو
اور اپنا خالی پن نظم کے سوا کسی پر عیاں نہیں کرتے
تمہارا دُکھ سمجھنے کے لئے
کئی نظموں اور زمانوں کی مسافت درکار ہے! ”
( ”سُفید بالوں والا بُدھا“ کا کچھ حصہ)

دیگر انتخابات میں بہترین سرمایہِ سخن شعرا کی نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔

حصہِ تنقید میں مختلف ادبی ہستیوں پر تبصرے موجود ہیں جن میں سے ملیحہ سید کا ”مجھ میں دریا بہتا ہے، خالد سجاد احمد کا شعری مجموعہ“ اور نصیر احمد ناصر کا ”نثری نظم کا تخلیقی جواز“ زیادہ پسند آیا۔ ثروت نجیب کا ”گلوریا جینز میں شام اور ہزار داستان“ (نصیر احمد ناصر کی مشہور نظم پر تبصرہ) بہترین پہلووں کو اجاگر کرتا مختصر مگر جامع مضمون تھا۔ آخری اور چوتھے سیکشن میں جناب محمود ظفر اقبال ہاشمی کا انٹرویو زندگی کے اُن اسباق سے مزین ہے جنہیں سیکھنے میں زمانے لگتے ہیں لیکن جن سے زندگی، ہمیشہ، معتبر راستوں پر چلتی رہتی ہے۔ بانو آپا کی رُوح یقیناَ اس ادبی و علمی ترقی پر خوش ہوگی۔ مجلہ ”قلم کی روشنی“ کو کتابوں سے دُور جاتی نسل اور دَور میں، سامانِ قلم اور روشنی پیدا کرنے پہ بے حد مبارک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).