کیا سیاح کڑاہی گوشت کھانے آئے گا؟


کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ خالقِ کائنات نے ہم پاکستانی مسلمان کس افضل مٹی سے پیدا کیے ہیں۔ مسلم امہ کے بزعمِ خود ٹھیکیدار ہم ہیں۔ برادر اسلامی ممالک کی ہر مشکل کا حل ہمارے پاس ہے۔ اغیار کی سازشوں کی بھی ہمیں پوری خبر ہے۔ مردم خیزی ایسی کہ اینٹ اٹھاؤ تو لیڈر نکل آتا ہے۔ کھیلوں کا ٹیلنٹ اس ملک میں ہمیشہ زیادہ رہا ہے، ایک سے ایک ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی لئے ہندوستان کو آگ لگتی ہے۔ ہمارے خلاف سازشیں کرتا ہے۔

قدرت کی ان تمام نوازشوں کے باوجود کچھ باتیں کبھی سمجھ نہیں آئیں۔ برادر اسلامی ممالک سمیت بیرونی دنیا میں ہمارا تاثر کیوں اتنا برا ہے۔ ستانوے فیصد مسلمانوں کی آبادی میں اسلام کیوں ہر وقت خطرے میں رہتا ہے؟ کھیلوں کے اتنے ٹیلنٹ کے باوجود اولمپکس کے منتظمیں کیوں صیہونی شازشوں سے ہمیں ناکام کروا دیتے ہیں۔ سائنس کا ٹیلنٹ اس ملک میں بھرا پڑا ہے لیکن ہمیں نوبیل انعام کیوں نہیں ملتا۔ پاکستان سوئزرلینڈ سے زیادہ حسین ہے لیکن سیاح یہاں کیوں نہیں آتے؟ باقی معاملات پر پھر کبھی علیحدہ علیحدہ کالم میں گفتگو ہو گی۔ فی الوقت سیاحت کی بات کر لیتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ تر افراد سخت روٹین کا شکار ہوتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کی وجہ سے ایک عام مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس کا فرد اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتا ہے۔ سال کے بعد ہر شخص کہیں نہ کہیں گھومنے پھرنے جاتا ہے، جس سے ریلیکس ہونے اور آنے والے سال کے لئے تازہ دم ہونے میں مدد ملتی ہے۔ سیاحت پوری دنیا میں باقاعدہ انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ سیاحت کے ذریعے نہ صرف زرمبادلہ آتا ہے بلکہ کئی مقامی انڈسٹریاں چلتی ہیں اور لاکھوں کروڑوں لوگوں کے روزگار کا وسیلہ بنتا ہے۔

دنیا میں سب سے زیادہ سیاح بالترتیب فرانس، سپین اور امریکہ جاتے ہیں۔ ایشیا میں چین، تھائی لینڈ، یو اے ای، بھارت، سری لنکا اور مالدیپ سیاحت کے حوالے سے مقبول ہیں۔ کوئی بھی سیاح جب کسی ملک کے لئے رختِ سفر باندھتا ہے تو وہاں کی ٹورسٹ اٹریکشنز کے بارے میں ریویوز، امن و امان، مہنگائی، نائٹ لائف وغیرہ کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ آج کل گوگل اور یوٹیوب نے دنیا کو مٹھی میں بند کر دیا ہے۔ ان سارے عوامل کو دیکھنے کے بعد جب فیصلہ کر لیتا ہے تو پھر ویزا اور دیگر سفری امور کی باری آتی ہے۔

دنیا میں کئی ممالک ویزا فری ہیں۔ بہتر پاسپورٹ کے حامل افراد کے لئے زیادہ ممالک میں ویزا فری انٹری یا ویزا آن ارائیول کی سہولت ہوتی ہے۔ حال ہی میں حکومتِ پاکستان نے ستر سے زیادہ ممالک کے شہریوں کے لئے پاکستان کو ویزا فری کر دیا ہے اور چالیس سے زیادہ ممالک کے شہری آمد پر ویزا حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ سیاحت کے فروغ کے لئے ایک احسن اقدام ہے۔

پاکستان کو بھلے پوری دنیا کے لئے ویزا فری کر دیں۔ میرا سوال لیکن مختلف ہے۔ کوئی سیاح یہاں کیا کرنے آئے گا؟ ہم بھی جب کسی ملک جاتے ہیں تو پہلا واسطہ وہاں کی پبلک ٹرانسپورٹ سے پڑتا ہے۔ لاہور میں نسبتاً بہتر ٹرانسپورٹ کے علاوہ آپ کے کون سے شہر میں اچھی پبلک ٹرانسپورٹ ہے؟ دور افتادہ شمالی علاقوں کو تو چھوڑیں، آپ کبھی کراچی اور اسلام آباد کی لوکل ٹرانسپورٹ پر سفر کر کے دکھا دیں۔ چلیں سیاح صاحب نے یہ بھی برداشت کر لیا یا مہنگی ٹیکسی افورڈ کر لی۔

آگے چلیں۔ کیا ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ایک گورا سیاح جب اپنی روٹین بریک کر کے پاکستان کے سفر پر روانہ ہوتا ہے تو وہ شام کے مشروبات سے توبہ کر کے آتا ہے؟ یا زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ اس کو تعطیلات میں ان مشروبات کی زیادہ ضرورت ہو گی؟ آپ کے ملک میں سب کچھ ملتا ہے لیکن بلیک میں۔ ہم کیوں نہیں سیاحوں کے لئے کچھ شہر یا کچھ ایریاز مخصوص کر دیتے جہاں انہیں ان کی من پسند اشیا عام دستیاب ہوں اور اصل مال ملے۔

کیا کراچی، لاہور، اسلام آباد، گوادر، سوات، مری اور ہنزہ میں ایسے مقامات نہیں بنائے جا سکتے؟ فرض کریں آپ آج تھائی لینڈ، بھارت، چین، سری لنکا اور دبئی میں کلب بند کر دیں اور مشروبات پر مکمل پابندی لگا دیں، تو کیا سیاحت اسی طرح جاری رہے گی؟ ظاہر ہے کہ دس فیصد بھی نہیں رہ جائے گی۔ چلیں دیگر ممالک کو تو چھوڑیں، ترکی، ملائشیا اور یو اے ای، کیا ان کا اسلام ہمارے اسلام سے زیادہ لبرل ہے؟ اگر وہاں کلب کھلنے اور شراب کی دستیابی سے کسی کا اسلام خطرے میں نہیں پڑتا تو ہمارا اسلام کیوں اتنا تنگ نظر ہے؟

چلیں دوسرے مسلم ممالک کو بھی چھوڑیں۔ ستر کے عشرے تک جب آپ کے ملک میں بھی یہ مشروبات عام دستیاب تھے، کلبز تھے، ہوٹلوں میں ڈانس پارٹیز ہوتی تھیں، تو کیا جو لوگ یہ مشروبات نہیں پیتے تھے ان کی نماز نہیں ہوتی تھی؟ یا اسلام کو کوئی خطرہ درپیش تھا؟ اسی طرح جب نائٹ لائف کے مخصوص مقامات متعین تھے اس وقت آپ کی دیگر آبادیوں میں ایسے معاملات نہیں تھے جیسے اب ہیں۔ جب لاہور میں ہیرا سنگھ کے نام سے منسوب بازار آباد تھا، وقت بے وقت چھاپے نہیں پڑتے تھے، تب کون سا اسلام خطرے میں تھا؟

صورت حال اس کے بر عکس ہے۔ اس وقت سیاح بڑی تعداد میں پاکستان کا رخ کرتے تھے۔ اسی طرح دبئی، ملائشیا، اور ترکی میں ایک ہی سڑک پر کلب بھی ہوتا ہے اور مسجد و کلیسا بھی۔ نہ شیخ، زاہد سے الجھتا ہے اور نہ شیخ، ساقی کے معاملات میں ٹانگ اڑاتا ہے۔ ہمارا ہاں اس کا الٹ ہے۔ اس بھرپور منافقت اور سختیوں کے باوجود آج بھی جس شخص نے شراب پینی ہے، وہ کہیں نہ کہیں سے مہیا کر لیتا ہے۔ مہنگی ملتی ہے، دو نمبر ملتی ہے اور یہ ساری معاشی سرگرمی ریاست کے محصولات میں درج ہونے سے محروم بھی رہتی ہے۔

ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ صدر ضیا الحق نے اپنی اسلامائزیشن کے دوران شراب پر پابندی لگائی۔ حالانکہ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جو خود پیتے تھے لیکن مولویوں کو خوش کرنے کے لئے شراب پر پابندی لگائی اور جمعہ کی ہفتہ وار تعطیل کی۔ چلیں صاحب آپ ایک دم ان نام نہاد ٹھیکیداروں سے پنگا نہ لیں۔ کم سے کم قوانین میں نرمی ہی کر دیجئے یا پولیس وغیرہ ان معاملات سے چشم پوشی کرنا شروع کر دیں۔ آپ کے بڑے شہروں اور بڑے سیاحتی مقامات پر ایسی سہولتیں عام دستیاب ہونی چاہئیں، تا کہ کسی سیاح کو خوار نہ ہونا پڑے۔

ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ اگر سیاحت کو فروغ دینا ہے تو ان معاملات میں نرمی پیدا کرنی پڑے گی۔ وگرنہ کون کافر یہاں آئے گا۔ اور اگر کوئی بھولا بھٹکا یہاں آ ہی جاتا ہے تو ہم اسے سوائے کڑاہی گوشت کھلانے کے اور کیا سہولت مہیا کر سکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).