آزاد محبت کی کہانی: افلاطون سے سلیکون تک


347 قبل مسیح کا عظیم یونانی فلسفی افلاطون پیدائشی امیر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا۔ ایتھنز میں دی اکیڈمی کے نام سے قائم کیاجانے والا سکول آج بھی یورپ کی سب سے پہلے یونیورسٹی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی عظیم فلسفی نے اپنے ہونہار شاگرد ارسطو کو نصیحت کی کہ اگر تم دنیا میں کسی بڑے مقام تک پہنچنا چاہتے ہوتو عورت سے ہمیشہ بچ کے رہنا۔ یہ کائنات کی وہ تخلیق ہے کہ جو اس کے دام میں الجھا، کام سے گیا۔ اس نے اپنے شاگرد سے عہد لیا کہ وہ ہمیشہ عورت ذات سے بچ کے رہے گا۔

ارسظو اپنے استاد سے کیے گئے وعدے پر پورے ایمان کے ساتھ کاربند اور حصول تعلیم میں محو تھا کہ اسی دوران اس کا سامنا زمانے کی مشہور طوائف سے ہوگیا جو اپنی عشوہ طرازی میں ثانی نہ رکھتی تھی۔ ایک مکمل خوبصورت عورت، لمی لمبی زلفیں، ماہ تابی چہرہ، ہرنی جیسی غزالی آنکھیں، ابرو جیسے کمان پر چڑھے تیر، جو دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا، شہر کاشہر اس کا دیوانہ بنا پھرتا۔ ارسطو کی نظر جب بھی اس پر پڑتی تو نظر نیچی کیے راستہ بدل لیتا۔

حسن کی دیوی کو زندگی میں پہلی با ر اپنی بے توقیری کا احساس ہوا۔ اس کے بعد اس عشوہ طراز کو ارسطو سے چڑ ہوگئی، وہ جان بوجھ کر اس کے راستے میں آتی اور ارسطو اپنے استاد سے کیے گئے وعدے کی لاج رکھتا۔ آ خر اس کا صبر جواب دے گیا اور اس نے رعونت کے ساتھ پوچھ ہی لیا۔ تم کیسے انسان ہو کہ ایک جہاں میرے حسن پر مرتا ہے اور تم ہو کہ نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتے، اس بیزاری کی وجہ۔ ارسطو نے اپنے وعدے کا تمام قصہ اسے بتا دیا۔

وہ قہقہہ مار کر ہنسی اور کہا، تم بس ایک کام کرو کہ فلاں دن، فلاں وقت اور فلاں مقام پرایک کنج میں چھپ جانا، وہاں تمہیں زندگی کا ایک اور سبق ملے گا۔ طویل انتظار کے بعد وہ لمحہ آٰن پہنچا۔ سقراط نے جھنڈ میں سے دیکھا کہ حسن کی بجلیاں گراتی، زرق برق لباس اور قیمتی زیورات سے مزین، ادائیں لٹاتی اس عورت کے جلو میں اس کا استاد افلاطون تھا۔ ارسطو یہ سب کچھ دیکھ کر غصہ سے لال بھبھوکا ہوکر کہنے لگا۔

استاد محترم! یہ کیا، جس عورت کے سایہ سے دور رہنے کا آپ نے مجھ سے وعدہ لیا تھا، خود اس کے دام فریب میں آگئے۔ میری تو عمرجوان ہے لیکن آپ اس سن رسیدگی میں گمراہ ہوگئے۔ افلاطون اس اچانک افتاد سے گھبرا اٹھا۔ پلٹ کر دیکھا تو عورت کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ مچل رہی تھی۔ ذہانت کے اعلیٰ مدارج پر فائز عظیم فلسفی سارا کھیل سمجھ گیا۔ پھر وہ ارسطو کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بڑے اطمینان سے بولا۔

برخوردار! یہی آج کا بہترین سبق ہے اور میرے دیے گئے سبق کی اس سے بہتر تصدیق نہیں ہوسکتی کہ اس عورت نے مجھ جیسے جہاں دیدہ انسان کو بے وقوف بنالیا، تو تم جیسے نوجوان کس کھیت کی مولی ہو۔ میں آج بھی یہی کہتا ہوں کہ کامیابی چاہتے ہو تو عورت سے بچ کے رہنا۔

لیکن افلاطون کو معلوم ہو کہ اس کی یہ عشوہ طراز عورت دنیا کی سب سے قیمتی اور منافع بخش جنس بن کر خوب بکتی ہے۔ اشتہارت کی صنعت میں یہ کہاوت بہت پرانی ہے ”جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے“۔ مصنوعات کی فروخت کے لیے عورتکے جسمانی خطوط کو ہیجانی انداز میں پیش کرنے کا ہنر عروج پر ہے۔ آ ج کل اس موضوع پر برلن میں ”وومن آن ویو“ کے عنوان سے ایک نمائش جاری ہے، جس میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران کے کچھ معروف فیشن اور کمرشل فوٹوگرافرز کی تصاویر نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ جن کا مقصد اشتہارات کی صنعت میں عورت کے جسم کی جنسی خصوصیات اور اس کے معاشرے پر اثرات کے موضوع پر بحث و مباحثے کا آغاز کرنا ہے۔

1970 کی دہائی میں حقوق نسواں کے لیے چلائی جانے والی تحریک اور ”می ٹو“ موومنٹ کے  اس دور میں بھی اشتہارات میں فرسودہ افسوسناک صنفی تقسیم موجود ہے۔ 1940 کی دہائی سے لے کر 1990 کی دہائی کے اشتہارات میں ایسے خد وخال کی عورت دکھائی جاتی تھی جس کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہ تھا، جس نے انتہائی تنگ لباس پہنا ہوتا تھا۔ یہ تصاویر آج بھی ٹیلی وژن، کمپیوٹر سکرینز، بل بورڈز اور کچھ خاص جریدوں میں دکھائی دیتی ہیں۔

1960 کی دہائی کے اواخر میں سابقہ مغربی جرمن میں نوجوان بہت سی تبدیلیوں کے مطالبے کرتے ہوئے سماجی، ثقافتی اور جنس سے متعلق سوچ میں تبدیلیوں کی بات کرنے لگے۔ یہی مطالبات جنسی انقلاب کی وجہ بنے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے مغربی جرمن میں عوام کی جنسی اخلاقیات کی خاص بات وہ سوچ تھی، جس میں بہت سی باتوں کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہوئے نوجوانوں کو ان کے خلاف تنبیہ کی جاتی، یعنی ہر وہ شے جس کا تعلق جنس سے ہوتا، اس پر بات کرنے سے پرہیز کیا جاتا، یہ سب کچھ بے شرمی سمجھا جاتا۔ اس سوچ کے خلاف خاص طور پر نوجوانوں کی طرف سے عوامی مظاہرے پورے یورپ میں دیکھنے میں آئے جنہیں یورپ کی گزشتہ صدی کی تاریخ میں 1968 کے واقعات اور ایسے مظاہرین کو 1968 والی نسل کا نام دیا گیا۔

تب انسانی زندگی کے ایک اہم پہلو کے طور پر جنس کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کا موقع حاصل نہیں تھا، اور اس پر بات کرنے والی بیٹی کو اس کی اپنی ماں فاحشہ اور بازاری عورت قرار دے دیتی۔ مغربی جرمنی سمیت یورپ میں عورت کو زیادہ تر خود یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا کہ انہیں حاملہ ہونا چاہیے یا نہیں۔ پھر پہلی بار جب مانع حمل گولیاں بھی مارکیٹ میں آنا شروع ہو گئیں، تو یہ فیصلہ خود عورت کرنے لگی کہ وہ کب حاملہ ہونا چاہے گی اور کب نہیں۔ اس طرح اسے سماجی طور پر یہ موقع بھی مل گیا کہ وہ اپنی شادی دیر سے کرنے، پہلے تعلیم مکمل کرنے اور اپنی پیشہ ورانہ کامیابی کو یقینی بنانے کے فیصلے خود کر سکے۔

یہ انہی سماجی، ثقافتی اور جنسی تبدیلیوں کا نتیجہ تھا کہ اگر کوئی حاملہ عورت بچے کو جنم نہ دینا چاہتی، تو وہ یہ فیصلہ خود کر سکتی تھی کہ اسے اسقاط حمل کرا لینا چاہیے۔ وہ اپنی زندگی میں خوشی، آزادی اور لذت کو ترجیح دینا سیکھ چکیتھی اور تب نوجوان مرد اور عورت سب کا نعرہ تھا ”پیار کرو، جنگ نہیں“۔ مطلب یہ تھا کہ آزادی کے عملی احساس کے لیے اطمینان اور خوشی زیادہ اہم ہیں، نہ کہ گولیوں اور بموں کا استعمال کرتے ہوئے جنگیں ہی کی جائیں اور انسانوں کو ہلاک کیا جائے۔

اس انقلاب کے پچاس سال بعد صورت حال یہ ہے کہ آج کے جرمنی، یورپ اور دنیا کی عورت کو یہ علم ہے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکتی ہے۔ جنس کوئی ممنوعہ موضوع نہیں اور اسے ایک سماجی حقیقت اور انسانوں کی ذاتی اور معاشرتی زندگی کے ایک اہم پہلوکے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ آج اگر یورپ میں کوئی عورت اپنی مرضی کا چاہے کتنا ہی مختصر لباس پہنے، اسے تنقیدی نظروں سے دیکھنے کے بجائے اسے اس کا ذاتی فیصلہ سمجھ کر قبول کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2