جموں کشمیر پر کیا گزری؟


شملہ سمجھوتے کی افادیت سے متعلق نئی دہلی حکومت کا حالیہ دعوی، جو سرکاری طور کشمیر مسئلے میں کسی تیسرے فریق کا راستہ روک لیتا ہے اور عالمی برادری کی مداخلت کو خارج کرتا ہے، کے پیش نظر ان حالات کا تذکرہ کرنا ضروری بن جاتا ہے جو تب کے حالات میں کشمیر سے متعلق پاکستان کی پوزیشن کو کمزور بنانے کے ذمہ دار بن گئے تھے۔

اس بات کو بھی یاد رکھنا ہو گا کہ دو ممالک کے درمیان تعلقات بنائے رکھنے میں اقوام متحدہ کا چارٹر زائدالمعیاد نہیں ہوا ہے۔ 1965ء کی بھارت پاکستان جنگ دونوں ممالک کے لئے تباہی کا باعث بن گئی تھی۔ اپنی ناک بچانے کے لئے دونوں ممالک نے اقوام متحدہ کے ہی زیر نگرانی جنگ بندی کو تسلیم کیا تھا اور 23 ستمبر 1965ء کو روس کے شہر تاشقند میں معاہدے پر دستخط ہو گئے تھے۔ تاشقند معاہدہ روسی پرائم منسٹر الیکسی کوسی جن، بھارتی پردھان منتری لال بہادر شاستری اور پاکستان کے صدر ایوب خان کے درمیان بات چیت کا نچوڑ تھا۔

 لیمب (1991ء) نے بات چیت سے وابستہ تب کے ماحول، موقع شناسی اور سفارتی نزاکتوں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خروشچیف کے دور میں کشمیر کے مسئلے پر سوویت یونین علانیہ طور پر بھارت کی پشت پر تھا۔ 1962ء میں روسی ویٹو کی بدولت ہی سیکورٹی کونسل کی رائے شماری قرارداد کو ناکام بنا دیا گیا تھا۔ لیکن 1965ء تک اور خروشچیف کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد پاکستان کے تیئں روسی نظریے میں نمایاں تبدیلی رونما ہو چکی تھی۔

بخشی غلام محمد اور نہرو

 اپریل 1965ء کے آغاز میں جب صدر ایوب خان سوویت یونین کے دورے پر ماسکو میں تھے، پرائم منسٹر الیکسی کوسی جن نے سابق رہنما خروشچیف کے مقابلے میں کافی لچکدار روئے کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس کی ایک ذیلی وجہ راولپنڈی میں چینی اثرورسوخ کو کم کرنے سے بھی تعلق رکھتا تھا۔ تاشقند معاہدے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پر امن ماحول میں بات چیت کو بحال کرنے کے لئے تاکید کی گئی تھی اور دونوں ممالک کے درمیان دوستی کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔

دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ کشمیر مسئلے کو کم اہمیت کے سیاسی مقام پر رکھا گیا تھا۔ بھارت اور پاکستان دونوں ممالک کے عوام نے اس معاہدے کو حقارت کی نظروں سے دیکھا تھا اور اس پر سرد مہری کا اظہار کیا تھا۔ داخلی مخالفت کے باوجود دونوں ممالک نے اصولی طور پر معاہدے پر کاربند رہنے کا اعادہ کیا اور جنگی قیدیوں کا تبادلہ کیا گیا۔ لیکن اختلافات کو پرامن طور سلجھانے اور دوستانہ تعلقات کومستحکم کرنے، جو اس معاہدے کی روح قراردی گئی تھی، میں کوئی پیش رفت نہ کی جا سکی (ملک 2002ء)۔

عوام کی امنگوں کو نظرانداز کرنے اور جمہوری اداروں کی بتدریج بیخ کنی کرنے کے نتیجے میں جموں کشمیر ریاست کو زبردست تباہی سے ہمکنار ہونا پڑا۔ صاحب اقتدار اور ان کے حاشیہ بردار حکام کی طرف سے اعلانات کے باوجود بھی بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر ریاست میں 1967ء کے انتخابات کو بھارت کے جمہوری چہرے کی علامت نہ بننے دیا گیا۔ کانگریس امیدواروں نے صادق اور قاسم کے برانڈ این سی کی مدد سے وادی کے 24 حلقوں سے 33 نشستوں پر قبضہ کر لیا۔

جموں صوبے کے 31 حلقوں میں 27 کو اور لداخ کی دو میں سے ایک نشست کو اپنے بس میں کر لیا۔ یوں تو یہ کانگریس کی بہت بڑی فتح کہلائی، لیکن سخت گیر انتخابی عمل کے نتیجے میں انڈین ایڈمنسٹریڈ جموں و کشمیر میں بدعنوان سیاسی کلچر کی جڑیں کافی مضبوط ہو گئیں اور ریاستی عوام کو ہنوز اس لعنت سے نجات نہیں مل سکی۔ جنوبی کشمیر کے اننت ناگ قصبے سے خو اجہ شمس الدین، جو چند سال قبل 63-1962 میں کچھ مہینوں کے لئے ریاست کے وزیراعظم بنائے گئے تھے، کو 1967ء کے الیکشن میں سرکاری امیدوار کی حیثیت دی گئی تھی۔

 ایسا ظاہر کیا گیا کہ خواجہ شمس الدین بلا مقابلہ کامیاب ہو گئے تھے، لیکن اصل میں ان کے مدمقابل 118 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو مختلف اعتراضات کے تحت مسترد کردیا گیا تھا۔ ان میں سے 55 امیدواروں نے لازمی قرار دیے گئے ہندوستان کے ساتھ وفاداری کی قسم لینے سے انکار کر دیا تھا۔ حکومت نے سرکاری جماعت کو 75 سیٹوں میں سے 61 پر فتح دلانے کے لئے انتہائی چالاکی اور مستعدی سے انتخابی مشنری اور دیگر ذرائع استعمال کیے تھے۔

نئی دہلی حکومت نے اپنے حاشیہ برداروں کو الیکشن جتانے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے تھے اور اسی پیمانے پر اپنے نظریاتی اور سیاسی حریفوں کو شکست سے دوچار کرنے کا سامان کیا تھا۔ نئی دہلی کے بہانہ سازوں نے جموں کشمیر میں برسراقتدار ٹولے کی جیت یقینی بنانے اور مخالف سوچ رکھنے والی جماعتوں کو غیر آئینی ثابت کرنے کے لئے ہر طرح کی منصوبہ بندی کی تھی اور سرکاری مشینری کی صلاحیتوں سے خوب استفادہ کیا تھا۔

 اس نوعیت کی بے اعتبار حرکتوں کے نتیجے میں کانگریس نے وادی میں، جہاں اس سے قبل اس جماعت کا وجود برائے نام بھی نہ تھا، اپنے لئے ایک مصنوعی بنیاد قائم کر لی۔ الیکشن کے اس سال کے دوران غیر متوقع طور ریاست کے سابق وزیر اعظم بخشی غلام محمد ( 1953ء۔ 1963ء) کے سرینگر کے پارلیمانی حلقے سے کانگریس کا امیدوار بننے کی مخالفت کی گئی۔ بخشی نیشنل کانفرنس کو ریاستی اسمبلی کے لئے منعقد الیکشن میں وادی سے فقط سات اور جموں سے واحد نشست پر کامیاب قرار دیا گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan