عدالت عالیہ سے: نواز شریف کو طبی بنیاد پر ضمانت ملے گی یا نہیں؟


”اگلی سماعت پر جیل ڈاکٹر کمرہ عدالت میں موجود ہوں ان سے جو معلومات لینی ہوں وہ فوری مل جاہیں یہ غیر معمولی کیس ہے اس کیس کو غیر ضروری التواء میں نہیں رکھنا چاہتے“ یہ الفاظ تھے جسٹس عامر فاروق کے جو طبی بنیادوں پر میاں نواز شریف ضمانت کیس کی سماعت کر رہے تھے۔

کمرہ عدالت میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پون ایک بجے آتے ہیں۔ چھ پکاروں کے بعد پکارا جاتا ہے میاں نواز شریف بنام سرکار، میاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اپنی قانونی ٹیم کے ساتھ روسٹرم پر جاتے ہیں۔ عدالت استفسار کرتی ہے کہ آپ پہلی سزا معطلی کی درخواست واپس لینے پر عدالت کو مطمئن کریں خواجہ حارث دلائل دیتے ہیں کہ درخواست واپس لینا درخواست گزار کا حق ہے نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ درخواست واپسی کی مخالفت میں دلائل دیتے ہیں۔ جسٹس عامر فاروق ریمارکس دیتے ہیں کہ اپ کے یہ دلائل دوسری درخواست کی صحت پر اثر کریں گے، ان کا اس درخواست سے کوئی تعلق نہیں۔ عدالت دلائل سننے کے بعد درخواست واپسی کی خواجہ حارث کی استدعا منظور کر لیتی ہے۔

طبی بنیادوں پر ضمانت پر رہائی پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث دلائل دیتے ہیں کہ سپیشل میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کے مطابق نواز شریف صرف عارضہ قلب میں ہی نہیں بلکہ کئی دیگر امراض میں بھی مبتلا ہیں۔ میاں صاحب کو ایسے اسپتال میں رکھنے کی ضرورت ہے جہاں اچانک ضرورت پڑنے پر دل، گردے، شوگر سمیت تمام بیماریوں کا علاج ہو سکے۔ انھوں نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ ایک میڈیکل بورڈ نے چھ سینئر ترین ڈاکٹرز پر مشتمل لارجر میڈیکل بورڈ بنانے کی سفارش کی مگر معائنے کے وقت اے ایف آئی سی کے دو ڈاکٹرز شریک نہیں ہوئے۔

معائنہ کرنے والے چار رکنی بورڈ میں بھی سینئر ڈاکٹرز نہیں بلکہ اسسٹنٹ پروفیسر سطح کے ڈاکٹرز تھے۔ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ میاں صاحب عارضہ قلب کے ساتھ ساتھ شوگر اور گردوں کا مرض بھی تیسرے درجے پر پہنچ چکا ہے۔ پانچویں درجے پر ڈائی لائسز کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ میڈیکل بورڈ نے کہا انہیں ایسی جگہ رکھا جائے جہاں اچانک ضرورت پڑنے پر تمام بیماریوں کا علاج ایک چھت کے نیچے ممکن ہو۔ سپریم کورٹ کہہ چکی ایسے مخصوص اور غیر معمولی حالات میں ضمانت ہو سکتی ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ کیا سپریم کورٹ نے ایسا کہا کہ غیر معمولی اور مخصوص حالات ہوں تو کیس کے میرٹ کو چھوڑ ہی دیا جائے؟ خواجہ حارث نے کہا ایک بیمار شخص جیل میں پڑا ہو اور مسئلہ زندگی و موت کا بن جائے تو میرٹس کو چھوڑا جا سکتا ہے۔ جسٹس محسن کیانی نے کمرہ عدالت میں موجود جیل ڈاکٹر سے استفسار کیا کہ ایمرجنسی کی صورت کون فیصلہ کرتا ہے کہ مریض کو شفٹ کیا جائے اور کیا جیل میں صرف آپ اکیلے ڈاکٹر ہیں۔

ڈاکٹر شکیل عدالت کو بتاتے ہیں کہ ایمرجنسی کی صورت میں شفٹ کرنے کا فیصلہ ہم کرتے ہیں۔

ڈاکٹر شکیل نے عدالت سے پوچھا کہ ”کیا اگلی سماعت پر میرا عدالت حاضر ہونا ضروری ہے؟“ عدالت نے حکم دیا کہ اگلی سماعت پر کوئی اور ڈاکٹر آ جائے تاکہ جو معلومات چاہیے وہ فوری مل جائیں یہ غیر معمولی کیس ہے اسے زیادہ دیر زیر التواء نہیں رکھا جا سکتا۔

کمرہ عدالت میں سماعت کے دوران بزرگ سیاست دان راجہ ظفرالحق، میاں نواز شریف کے دست راست عرفان صدیقی، سابق وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید، مریم اورنگزیب، سابق گورنر کے پی کے انجینئر ظفر اقبال جھگڑا، بیرسٹر ظفراللہ خان، سردار ممتاز خان، ایم این اے جاوید لطیف، سابق وزیر دفاع خرم دستگیر، سعدیہ عباسی گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان، ازاد کشمیر کے وزیر احمد رضا قادری، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور دیگر لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui