میں امریکہ میں چودھری کیسے بنا؟


پرسوں رات سے بادل برس رہے ہیں۔ آغاز ڈھائی تین گھنٹے کی برفباری سے ہوا۔ اس کے بعد سے موسلادھار بارش ہورہی ہے۔ مزید پندرہ سترہ گھنٹے کی پیش گوئی ہے۔ سردی ہے لیکن قابل برداشت۔ درجہ حرارت صفر اور دس کے درمیان رہے تو مناسب ہے۔ صفر سے نیچے سسکیاں، منفی پانچ کے بعد کراہیں اور ساتھ میں ہوا چلے تو چیخیں نکلنے لگتی ہیں۔

منہ اندھیرے کار چلانا کوئی مسئلہ نہیں لیکن اندھیرا اور بارش ہو تو گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ سڑک پر سفید لائنیں نظر نہیں آتیں۔ پتا نہین چلتا کہ کون سی لین میں ہوں۔ شکر ہے کہ میٹرو اسٹیشن بہت دور نہیں۔ کار وہاں پارک کرکے ٹرین میں دفتر جاتا ہوں۔

زندگی کا بیشتر حصہ شام کو کام، رات بھر جاگ کر مطالعہ کرنے اور منہ اندھیرے سونے والے شخص کا رات کو اول وقت سونا اور منہ اندھیرے گھر سے نکلنا کتنا عجیب واقعہ ہے، آپ نہیں جانتے۔ سچ یہ ہے کہ صبح کو اندھا بھینسا بنا ہوا ہوتا ہوں۔ ٹرین میں بیٹھتے ہی سو جاتا ہوں۔ آدھے گھنٹے میں منزل آجاتی ہے۔ میں سوتا رہ جاتا ہوں۔ کئی بار آخری اسٹیشن پر پہنچ کر آنکھ کھلی۔ لیکن کوئی فکر کی بات نہیں۔ وہی ٹرین واپس چل پڑتی ہے۔ میں کچھ تاخیر سے دفتر پہنچ جاتا ہوں۔

صبح ٹرین میں بہت سے لوگ انٹاغفیل پڑے ہوتے ہیں۔ ادھیڑ عمر خواتین و حضرات کافی کا کپ ہاتھ میں لے کر خیالوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ نوجوان موبائل فون کی اسکرین سے چپکے رہتے ہیں۔ بزرگ اخبار پڑھتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کا ضمیمہ جو ہر صبح میٹرو اسٹیشن کے دروازے پر سیکڑوں کی تعداد میں رکھ دیا جاتا ہے۔ قیمت صفر ڈالر۔ ہمارے اسد نذیر صاحب اسے ٹرین میں پڑھ لیتے ہیں اور سارا دن ہمیں مقامی خبریں سناکر حیران کرتے ہیں۔

اسد نذیر صاحب ہمارے سینئر ہیں۔ تیس پینتیس سال ریڈیو پاکستان میں خدمات انجام دیں۔ اب اٹھارہ بیس سال سے وائس آف امریکا واشنگٹن میں ملازم ہیں۔ ایک سال انگلینڈ میں بھی رہے۔ چار پانچ سال ٹوکیو میں جاپان ریڈیو کے لیے کام کیا۔ میں ایسے لوگوں کو دفتر میں دیکھتا ہوں اور ان کے کریئر پر رشک کرتا ہوں۔ اسد نذیر صاحب نے ساٹھ کی دہائی میں صدر ایوب کا انٹرویو کیا تھا۔ بڑے بڑے مشاہیر سے ملاقاتیں رہیں۔ اکثر قصے سناتے ہیں لیکن جب میں کتاب لکھنے کا کہتا ہوں تو ٹال جاتے ہیں۔

اسد صاحب نے چند دن پہلے بتایا کہ ان کا ہرنیا کا آپریشن ہونے والا ہے۔ میں نے کہا، کوئی خاص بات نہیں۔ آپ چند دن میں ٹھیک ہوجائیں گے۔ انجم گل صاحب نے کہا، سر فکر نہ کریں۔ تیسرے دن آپ گھر آجائیں گے۔ عمید ملک نے کہا، میرے ایک دوست کا ہرنیا کا آپریشن ہوچکا ہے۔ بالکل فٹ فاٹ ہے۔

لیکن اصفر بھائی نے کہا، میرے ایک جاننے والے کے جاننے والے کے جاننے والے کا ہرنیا کا آپریشن ہوا تھا۔ اللہ بخشے، مرحوم اچھے آدمی تھے۔ اسد صاحب اچانک گھبرا گئے۔ میں نے انھیں تسلی دی۔ انجم صاحب نے اصفر بھائی کو آنکھیں دکھائیں۔

کرنا خدا کا کیا ہوا کہ اسد صاحب کا آپریشن کامیاب رہا لیکن خون زیادہ بہہ گیا اور پھر سویلینگ ہوگئی۔ دفتر میں خبر پہنچی تو سب پریشان ہوگئے۔ قریبی دوستوں نے اصفر بھائی سے شکایت کی۔ ایک دو نے ان کا منہ کھلوا کر زبان بھی چیک کی۔

خیر، ایسی کوئی فکر کی بات نہیں۔ میں نے کل فون کیا تو اسد صاحب کی طبیعت بحال تھی۔ چہک رہے تھے۔ کال ریسیو کرتے ہی آواز لگائی، شاہ جی! کیا حال ہے۔ میں نے کہا، سر اپنا حال سنائیں؟ انھوں نے بتایا کہ گھر آگیا ہوں۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا کہ اسپتال والوں نے گھر جانے دیا ہے تو سب خیریت ہی ہوگی۔

اسد صاحب ہر شخص کو شاہ جی کہتے ہیں۔ کوئی سید ہے یا نہیں، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ قمر جعفری بھی شاہ جی ہیں اور انجم ہیرلڈ گل بھی۔ بلکہ دیپک سیٹھ بھی۔ یہی حال ملک عمید الرحیم کا ہے۔ وہ ہر شخص کو چودھری صاحب کہتا ہے۔ نخبت ملک بھی چودھری صاحب ہیں اور سید اصفر امام بھی۔ چنانچہ آج کل میرا نام چودھری مبشر علی شاہ جی ہے۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi