این آر او: کاٹھ کے گھوڑے میں کونسا لشکر چُھپا ہے؟


سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی مملکت میں آج تک جمہوریت کی پنیری نشونما نہیں پا سکی۔ جمہوریت کی شاہراہ پر گھسٹتا لنگڑاتا جو بھی سفر طے ہوا اس کی راہ میں بھی ہمیشہ کانٹے بکھرے رہے۔ مختلف لسانی اکائیوں کو ایک قوم اور ایک جغرافیے پر متحد کرنا ایسا محیر العقول کارنامہ تھا جو سیاسی جدوجہد کے سوا کسی دیگر طریق سے ہرگز منزل سے ہمکنار نہ ہوتا۔ یہ کامیابی مگر برقرار یا دیرپا کیوں نہ رہی اس کی بڑی وجہ بٹوارے سے قبل کے انگریز نو آبادیاتی نظام کی چند مضر نشانیوں میں سے ایک نشانی یعنی بیورو کریسی کی طاقت نوزائیدہ مملکت میں بھی برقرار رہنا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد زیادہ عرصہ قائد اعظم کو زندگی کی مہلت نہ ملی اور ان کے بعد مسلم لیگ کی بقیہ قیادت میں سیاسی سمجھ بوجھ، برداشت اور حوصلے کا فقدان رہا۔ سیاستدانوں کی آپسی کھینچا تانی کے باعث طاقت کا ایسا خلا پیدا ہوا جسے سول بیورو کریسی نے پر کیا۔ سونے پہ سہاگہ ایک کینہ پرور ہمسائے اور آزادی کے فورا بعد کشمیر پر ہوئی جنگ نے ریاست کو مستحکم و منظم سپاہ کی ضرورت کا احساس دلایا۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے قوم کا پیٹ کاٹ کر افواج کو وسائل فراہم کرنا لازم تھے۔

بعد ازاں وسائل کی فراوانی اور دیگر بہت سی وجوہات کے باعث پہلے مسلم سپہ سالار جنرل ایوب خان تک قیادت پہنچتے ملکی افواج عسکری محاذ پر طاقتور ہونے کے ساتھ اس قدر قوت کی حامل ہو چکی تھی کہ اس نے سیاسی محاذ کی باگ ڈور بھی سول بیورو کریسی کے ہاتھ سے لے کر خود سنبھال لی۔ اپنے اقتدار کو مکمل اور سیاسی مخالفت کا ذرا برابر امکان ختم کرنے کے لئے جنرل ایوب نے ”ایبڈو“ نامی قانون کا متعارف کرایا۔ مذکورہ قانون ملکی سیاسی نظام کو سرطان زدہ کرنے کا نقطہ آغاز تھا اور اس وقت سے آج تک اس قسم کے قوانین کسی نہ کسی صورت ہر دور میں موجود رہے۔

وطن عزیز میں پے در پے مارشل لاء لگتے رہے، جمہوری حکومتیں کسی نہ کسی بہانے بے توقیر ہوتی رہیں۔ یہ بات درست ہے کہ اپنی بے توقیری اور غیر جمہوری قوتوں کو اقتدار کی راہ دکھانے والے خود سیاستدان تھے۔ لیکن اگر وطن عزیز میں جمہوریت کا تسلسل جاری رہتا اور احتساب کا عمل انتخابات کی صورت عوام کے ہاتھ میں رہنے دیا جاتا تو نہ صرف ملک کا مشرقی حصہ بچ سکتا تھا بلکہ آج ہم اقوام عالم میں ایک با عزت مقام پر ہوتے۔ آزادی کے ابتدائی چوبیس سال لگاتار سول و ملٹری بیورو کریسی کی نذر ہو گئے اور حقیقتاً اس عرصہ میں کسی آئین و دستاویز کے بغیر محض زبانی احکامات پر ریاست چلتی رہی۔

افسوس کا مقام ہے کہ ملک دولخت ہونے کے بعد پہلا متفقہ آئین مرتب ہوا مگر اسے بھی چلنے کا موقع نہ ملا۔ اس آئین کو حقارت سے کاغذ کا ٹکڑا کہہ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ جواز یہی ملا کہ نوے روز میں صاف شفاف انتخاب کے ذریعے نئی قیادت کو اقتدار منتقل ہوگا، نوے دن گیارہ سال تک طول پکڑ گئے مگر وعدہ وفا نہ ہوا۔ درمیان میں خلق خدا کو مطمئن کرنے کی خاطر اسمبلی اور وزیراعظم لائے گئے۔ نام نہاد جمہوری بندوبست قائم ہوا بھی تو اسے غیر جماعتی انتخاب کے ذریعے مقررہ حد سے اونچی اڑان کی اجازت نہ ملی۔

بالآخر ایک فضائی حادثہ ہوا اور یہ باب تمام ہوا۔ اس کے بعد فیصلہ سازوں نے بدلتی عالمی تقاضوں کے مطابق نئی حکمت عملی سوچی اور اس کے تحت اقتدار کے ایوان نوے کی پوری دہائی میں میوزیکل چیئر بنے رہے۔ اس دہائی کے اختتام پر کارگل ایڈونچر کی تحقیق سے بچنے کے لیے ایک آمر پھر اقتدار پر قابض ہو گیا۔ ملک عزیز کے آٹھ سال اس مہم جوئی کی نذر ہوئے اور اس عرصے میں جو نقصان ہوا صدیوں اس کی تلافی نہیں ہو پائے گی۔ کہا جاتا ہے سویلین حکمران خود تصادم کی طرف جاتے ہیں، تاریخ شاہد ہے کہ جونیجو اور جمالی سے زیادہ بے ضرر شخص شاید ہی کبھی وزارت عظمی کے عہدے پر بیٹھے ہوں۔ معمولی اختلاف پر مگر انہیں بھی چلتا کردیا گیا۔ اصرار ہوگا کہ اس کے بعد لگاتار دس سال جمہوری حکومت چلی، اس نے کیا تیر مار لیا؟ اس کا جواب عدالتی ایکٹوازم، میمو گیٹ، ڈی چوک اور فیض آباد دھرنا ہیں۔

پھر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سیاستدان کرپٹ ہیں۔ شریف برادران اندر ہیں، زرداری اینڈ کمپنی کو بھی دھر لیا جائے۔ سعد رفیق، انور مجید، فواد حسن فواد بھی تحویل میں ہیں۔ اس سے قبل ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن بھی عتاب کا شکار رہے۔ اب تو حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے عبدالعلیم خان کی گرفتاری بھی ہو چکی، سوال ہے حکومتی کارپردازان کرپشن کے خلاف شعلہ بدہن بھی ہیں اور شعلہ بدست بھی۔ آخر ایک دھیلے کی ریکوری پھر بھی کیوں نہیں ہوئی؟ یا تو یہ لوگ معصوم ہیں جو کہ یقین ہے کہ نہیں ہیں، یا پھر تفتیش کرنے والے ادارے نا اہل، مگر ہمارا اصرار کہ وہ بھی دنیا میں اول، پھر ناکامی کی ایک ہی وجہ رہ جاتی ہے۔

ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی

شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے

جتنی رقم کے الزام ہیں اگر اس کا نصف بھی برآمد ہو جائے تو کاسہ گدائی کی حاجت ہو گی؟ محمد بن سلمان تشریف لا رہے ہیں، ان سے MBS ماڈل سیکھیں اور سب کو کسی ہوٹل میں بند کر کے گردن پر پاؤں رکھ کر ریکوری کرا لیں۔ بلا امتیاز احتساب پر کسی کو یقین پھر بھی نہیں آئے گا، کیونکہ بقیہ عرصہ ملک پر جن کی حکمرانی رہی، کیا وہ گنگا نہائے ہوئے تھے۔ سیاستدانوں کے علاوہ ججز، جرنیل، وکلا، بیوروکریٹ اور صحافی سب پارسا ہیں؟

کس نے کیا بیچا اور کس طرح ملکی مفاد کو نقصان پہنچایا، بیان کرتے زبان پر چھالے نہیں پڑیں گے، مگر باپ کا سایہ سر پر نہیں، کم عمر بھائیوں کا تنہا کفیل ہوں۔ ذمہ داریوں کی زنجیر سے پاؤں آزاد ہونے کے بعد زندگی نے مہلت دی تو ان شاءاللہ ملک عزیز کو نقصان پہنچانے والے تمام کردار کتاب لکھ کر ضرور بے نقاب کروں گا۔ سب کو اندازہ ہے حکومت وقت کی کوتاہی پرواز کا، پھر اچانک قائد انقلاب کیوں این آر او کا واویلا کر رہے ہیں؟

وہ کس کو بیوقوف بناتے ہیں، کیا وہ کسی کو این آر او دینے کی قوت رکھتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ان کی کارکردگی سے مایوس ہوکر فیصلہ ساز کسی چور ڈاکو کو دوبارہ مسلط کرنا چاہ رہے ہوں؟ ہر صاحب فہم کو خبر ہے کہ جھگڑے کی اصل وجہ کیا ہے۔ مگر درویش ان میں سے نہیں جو کہتے ہیں کہ کیک کا سائز چھوٹا، اور توانا ہاتھ زیادہ سمیٹ لیتے ہیں لہذا بقیہ بھوکے رہ جاتے ہیں۔ عرض بس اتنی ہے کہ خدارا ملک عزیز میں عدم استحکام پیدا کرنے سے گریز فرمائیں، گلشن کا کاروبار روانی سے چلنے تو دیں تاکہ کیک کا سائز بھی ضرورت کے حساب سے بڑا ہو سکے۔

ضروری وضاحت! درویش کے نقطہ نظر سے اختلاف ہر کسی کا حق ہے، بیشک گالیاں بھی پہلے سے زیادہ دیں۔ میرے نامہ اعمال کی سیاہی اسی بہانے مٹ رہی پے۔ مگر دست بستہ التماس ہے کہ غداری کا طعنہ کوئی مت دے۔ اس الزام پر سینہ کٹ جاتا ہے۔ مٹی کی محبت رگوں میں ایمان کے ساتھ روڑ رہی ہے، بلکہ خدا گواہ ہے کہ وطن سے محبت شاید ان سے بھی کچھ زیادہ ہو جو حب الوطنی کے بیج لگائے پھرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).