پِیے جاتے ہیں ”واں“ حسرت، لہو انساں ہی انساں کا!



میں بھولے سے بھی اُس جانب، گیا توماراجاؤ ں گا ( فیاض حسرت)

کوئی مجھے بتاؤ کہ اس دیس میں کیا اب کوئی ایسا دن گزرتا ہے جس میں کسی انسان کا لہو نہ بہایا جاتا ہو؟ جس میں کسی انسان کو بے دردی سے مارا نہ جاتا ہو؟ جس میں آہیں اور سسکیاں نہ ہوتی ہوں؟ جس میں آہ و فغاں نہ ہوتی ہو، کوئی مجھے کیا بتائے گا؟ میری آنکھیں نہیں جو میں دیکھ نہ سکوں، میرے کان نہیں جو میں سن نہ سکوں، میرے دیکھنے اور سننے میں تو کوئی دن اب اس دیس میں ایسا نہیں گزرتا جس میں انسان ہی انسانوں کا لہو نہ پیتا ہو۔ ایسے دردناک ماحول میں باقی کے لوگ کیوں نہیں بلکتے، باقی کے لوگوں کو درد کیوں نہیں محسوس ہوتا۔ لوگوں کے سامنے لوگوں کو بے دردی سے مار دیا جاتا ہے لیکن لوگ چپ رہتے ہیں۔ آخر کیوں؟ کیا اس کی یہی وجہ ہے کہ لوگ چپ رہتے ہیں کہ کہیں انہیں بھی نہ مار دیا جائے، کہیں ان کا بھی لہو نہ پی لیا جائے؟ نہیں نہیں ایسا ہر گزر بھی نہیں ہے۔ اب معاملہ تو یہاں تک آن پہنچ چکا ہے۔

سنیے ذرا! دل و جگر تھام کے سنیے!

میں نے ایک استاد سے سوال پوچھا۔ اُس وقت میں مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی کی کتاب تاریخ ِ اسلام کا مطالعہ کر رہا تھا۔ پرانے وقتوں میں ہوتی جنگوں او ر اُس میں مرتے لاکھوں، کروڑوں انسانوں کا وہ منظر مجھے خوف میں مبتلا کر گیا۔ میں نے سوال یہ پوچھا کہ اس دور میں اگر کوئی ایسا منظر لوگوں کے سامنے آ جائے تو شاید دیکھنے والے سب مر جائیں۔ تو استاذ نے مجھے ایک مثال سے سمجھا یا تب میری سمجھ میں کچھ آیا کہ کیوں ہم چپ رہتے ہیں، کچھ بولتے نہیں جب ہمارے سامنے انسانوں کو بے دردی سے مار دیا جاتا ہے۔

جب بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو اس کے سامنے کسی جانور کو ذبح کیا جائے تو وہ چیختا ہے اور رو رو کہ کہتا ہے کہ اسے مت ذبح کرو یہ مر جائے گا۔ وہ بچہ اس وقت جانور کو ذبح ہوتے نہیں دیکھ سکتا لیکن جب اس کے سامنے کچھ مرتبہ جانوروں کو ذبح کر دیا جاتا ہے تو اس کا احساس وہ پہلے کی طرح نہیں رہتا بلکہ ایک دن تو ایسا آتا ہے کہ وہی بچہ جو جانور کو ذبح کرنے وقت رو رہا ہوتا تھا اب وہی بچہ جانور کو ذبح ہوتے خالی دیکھتا ہی نہیں بلکہ ساتھ تالیاں بھی بجا رہا ہوتا ہے۔ استاذ نے یہ مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر انسان کے سامنے انسانوں کو ذبح کیا جاتا رہے تو وہ کچھ پل ہوں گے جب انسان کو درد محسوس ہوگا اُنہیں ایسا کرنا قیامت لگیں گے لیکن جلد ہی وہ وقت آئے گا کہ انسان کے سامنے جانور یا انسان ذبح ہونا برابر ہو جائے گا۔

غالب کا کہنا یاد آیا
” ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیاسر کے کٹنے کا“
آہ! اب تو سارا عالم ہی بے حس ہو چکا کہ اُس کے سامنے کئیوں کے سر کاٹے جا رہے ہیں مگر اُسے کچھ فر ق نہیں پڑتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).