تھر میں موت کا رقص


روزمرہ کی طرح میں اپنے کاموں میں مشغول تھاکہ ایک ٹیلی ویژن اسکرین پرچلنے والے ٹکرز پر نظر پڑی کہ تھرمیں بچوں کی اموات کا سلسلہ تھم نہ سکا، سول ہسپتال مٹھی میں غذائی قلت کے باعث تین مزید بچے جاں بحق ہوگئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام ٹی وی چینلز خبر بریک کرنے کی دوڑ میں شامل ہوگئے، ہر کسی نے اپنے اپنے انداز سے تفصیلات بتائیں۔ حتی کہ ایک دو بیپر بھی لئے گئے۔ بریکنگ نیوز میں چلنے والے ٹکرز چینلز پر کچھ وقت تک نمودار ہوتے رہے اور پھر غائب ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے تھر میں جاری اموات کا ماتم تین منٹ تک مناکر اپنا حق اداکردیا اور اپنی زندگیوں میں مصروف ہوگئے۔

ضلع تھرپارکر صوبہ سندھ کا ایک پسماندہ ضلع ہے، اس کے شمال میں عمر کوٹ اور میرپور خاص، مشرق میں بھارت کے بارمیر اور جیسلمیر کے اضلاع، مغرب میں بدین اور جنوب میں رن کچھ کا متنازع علاقہ واقع ہے۔

یہ اضلاع چار تحصیلوں ڈیپلو، چھاچھرو، مٹھی، ننگرپارکر پر مشتمل ہے۔ قدرتی وسائل سے مالامال تھرپارکر میں گزشتہ چھ سالوں سے قحط کے باعث موت کا رقص جاری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2012 سے 2018 تک تھرپارکر میں 3 ہزار 9 سو سے زائد جبکہ رواں سال کے دوران اس کالم کے لکھنے تک تراسی بچے خوراک کی کمی اور علاج کی ناکافی سہولیات ملنے کے باعث ابدی نیند سوچکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی تھرپارکر میں غربت اور بے روزگاری سے تنگ آکر کئی تھری اپنی زندگی کاخاتمہ کرچکے ہیں۔ جبکہ تھر کی خوبصورتی میں چار چاند لگانے والے سینکڑوں مور بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔

تھر کے لوگوں کا ذریعہ مال مویشی پالنے پر مشتمل ہے اور کسی حد تک مخصوص کاشتکاری پر بھی، جس کا انحصار ابر رحمت پر کیا جاتا ہے۔ مگر گزشتہ چند سالوں سے بارشیں نہ ہونے کے سبب تھری سخت اذیت میں مبتلا ہیں اور نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ سول اسپتال مٹھی میں نومولود بچوں کی اموات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جس کے باوجود صوبائی وزراء خواب غفلت کی نیند سو رہے ہیں اور سب ٹھیک ہے کا واویلا مچانے میں مصروف ہیں۔ حال تو یہ ہے جب کوئی حکومتی وزیر یا جج سول اسپتال کا دورہ کرتا ہیں تو ہنگامی بنیادوں پر اسپتال کی تزئین وآرائش سمیت مریضوں کو سہولیات فراہم کردی جاتی ہے۔ بارشیں نہ ہونے کے سبب تھر میں انسانوں کی اموات کے ساتھ ساتھ ان کے مال مویشی بھی خوراک کی کمی سے ہلاک ہورہے ہے۔ جس کی وجہ سے تھری شدید مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔

حکومت کے پاس ابر رحمت برسانے کا انتظام تونہیں ہے۔ لیکن یہ مصنوعی بارشوں کے ذریعے تھر کے صحرا کو ایک بار پھر سرسبز بناسکتی ہے۔ دنیا بھر میں مصنوعی بارشوں کے ذریعے کئی سالوں سے بنجر زمینیں آباد کی جارہی ہے۔ حکومت چاہیں تو تھر میں بھی مصنوعی بارشیں کی جاسکتی ہیں۔ مصنوعی بارش برسانے کا پہلا کامیاب تجربہ چین نے کیا، جبکہ بیجینگ میں فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے مصنوعی بارشیں برسانا معمول ہے۔

مصنوعی بارش ڈرونز کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ یہ طریقہ کینن اور روایتی منڈوا طیاروں سے پانی برسانے سے کم لاگت اور موثر ہے۔ اس کے علاوہ جدید سائنسی طریقہ کار کے تحت سمندر کے اوپر بادل بناکر انہیں کسی بھی علاقے کے اوپر لے جاکر برسایا جاسکتا ہے۔ مصنوعی بارش میں بادلوں پر ہوائی جہاز کے ذریعے دو سے چار فٹ کی بلندی سے کاربن ڈائی آکسائیڈ، سوڈیم کلورائیڈ اور سلور آئیوڈائیڈ جیسے مرکبات چھڑکائے جاتے ہیں۔ مصنوعی بارش کے لیے بادلوں کی تہہ کو سات سے دس ہزار فٹ موٹا ہونا چاہیے۔ ہوا میں 70 سے 75 فیصد نمی اور رفتار 30 سے 50 کلومیٹر فی گھنٹہ ہونا ضروری ہے۔ چین کے علاوہ بھارت، متحدہ عرب امارات اور جنوبی افریقہ میں بھی بارش برسانے کے لیے مختلف تجربات کیے جاچکے ہیں۔

شاہ رخ شیخ کاتعلق شعبہ صحافت سے ہے، جامعہ سندھ جامشورو سے ایم اے ماس کمیونیکیشن کرچکے ہیں، اور اس وقت اردو روزنامہ اور چینل سے وابستہ ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).