کہ دن ہی کم تھے محبت میں فروری کی طرح


محبت ایک بہت ہی مضبوط اور خوبصورت جذبہ ہے۔ محبت ایک زبردست طاقت کا منبع ہونے کا ساتھ خوشی اور نقصان کا بھی باعث ہے۔ محبت ایک خاص جذبہ ہوتا ہے جو کہ صرف خاص لوگوں کے لئے ہوتا ہے۔ محبت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ محبت قربانیاں مانگتی ہے، کبھی روح کی، کبھی جان کی اور کبھی خواہشات کی۔ ہر سال 14 فروری کو ”ویلنٹائن ڈے“ کے نام سے محبت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس کی ابتداء 279 عیسوی کو ہوئی۔

اس دن کا آغاز رومن سینٹ ویلنٹائن کی مناسبت سے ہوا۔ سینٹ ویلنٹائن کو مذہب تبدیل نہ کرنے کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ قید کے دوران ہی اسے جیلر کی بیٹی سے عشق ہو گیا۔ جیلر کی بیٹی روز اس کے لئے پھول لاتی۔ جب بادشاہ کو یہ ماجرا پتا چلا تو اس نے ویلنٹائن کو پھانسی کی سزا دینے کا حکم سنا دیا۔ ویلنٹائن نے پھانسی پر چڑھنے سے پہلے جیلر کی بیٹی کو الوداعی خط لکھا۔ جس پر اس نے دستخط سے پہلے لکھا تھا، ”تمہارا ویلنٹائن“۔ اسی واقعہ کی یاد میں آج بھی یہ دن منایا جاتا ہے۔

ویلنٹائن ڈے کو اگر اسلامی تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کا یہ ماننا ہے کہ اسلام اس قسم کے تہوار منانے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ یہ تہوار اسلامی روایات کے خلاف ہے۔ یہاں پر ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ ہم ”مسلمان“ تو بڑے محبت کرنے اور بانٹنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ ہمارا مذہب ”اسلام“ بھی تو امن و محبت کا دین ہے۔ تو پھر ایسی کیا وجہ ہے کہ اہلِ اسلام ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسلام کے پیروکار اسے محبت کا عالمی دن نہیں مانتے۔

اہلِ اسلام کہتے ہیں کہ ہم محبت کا دن منانے میں حائل دیوار نہیں ہیں بلکہ اس دن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی وجہ سے اس کے خلاف ہیں۔ اسلام کبھی بھی کسی کے جذبات کچلنے کا حکم نہیں دیتا۔ اور جذبات کی تسکین کے لئے اسلام نے ایک راستہ بتایا ہے اور وہ ہے نکاح۔ اور ایسی تفریح جو انسان کو اللّٰہ کے ذکر سے غافل کر دے، اسلام اسے تسلیم نہیں کرتا۔

پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کا تصور نوے کی دہائی میں ٹی وی اور ریڈیو کی نشریات کی وجہ سے مقبول ہوا۔ اب یہ دن نہ صرف شہروں بلکہ چھوٹے بڑے تمام قصبوں میں بھی بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ پھولوں کی قیمتوں اور فروخت میں کئی گنا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ روشن خیالی سے متاثر نوجوان کہتے ہیں کہ ایسی تفریح ہونی چاہیے اور جذبات کی قدر ہونی چاہیے۔ بہت سے موسمی عاشق 14 فروری کو منظرِ عام پر آتے ہیں۔ لیکن نوجوان نسل کے جذبات کو ٹھیس اُس وقت پہنچی جب جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے ویلنٹائن ڈے پر پابندی لگا دی۔

اور اعلامیہ جاری کر دیا کہ 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے کی بجائے سسٹرز ڈے یعنی بہنوں کا عالمی دن منایا جائے گا۔ اور اس دن طالبات میں یونیورسٹی کے نام والے برقعے، شال اور اسکارف بانٹے جائیں گے اور انہیں ساتھی لڑکوں کی بہنیں بنایا جائے گا۔ اس سے قبل ہمارا محکمہ زراعت کچھ ایسی ہی عجیب وجوہات کی وجہ سے کافی زیادہ خبروں میں رہا جن کو شائع نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس مرتبہ یہ مقبولیت زرعی یونورسٹی کے حصے میں آئی۔

سوشل میڈیا پر اس فیصلے کے متعلق مختلف عوامی حلقوں کی جانب سے تنقید و تعریف کا سلسہ جاری ہے۔ تحریکِ انصاف کے جیالوں کا کہنا ہے کہ یہ احسن اقدام صرف عمران خان کے حکومت میں آنے کے بعد اٹھایا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ مطالبہ سامنے آیا کہ اگر لڑکیوں کو اسکارف اور شال وغیرہ تحفے میں دیے جائیں گے تو لڑکوں کو بھی تسبیح اور ٹوپی دی جانی چاہیے۔ حیاء ڈے اور سسٹرز ڈے جیسی رکاوٹوں نے تو جیسے نئے نویلے عاشقوں کی عاشقی کے سارے دروازے ہی بند کر دیے ہوں۔

اس فیصلے نے تو اب 14 فروری کو جامعات میں طلبہ کی تعداد کم ہی دِکھنے کے امید ظاہر کر دی ہے۔ موسمی عاشقوں کو ابھی محبت کیے جمعہ جمعہ آٹھ ہی دن ہوئے ہوں لیکن ”یومِ ہمشیرہ“ منانے کے اس فیصلے نے ان کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ ابھی تو ان جوانوں نے اور محبت کرنا تھی لیکن بدقسمتی کہ دن ہی کم تھے محبت میں فروری کی طرح۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).