چین میں مسلمانوں کی حالت


آج کل چین میں مسلمانوں پر ہونے و الے مظالم کی خبریں ہم جگہ جگہ انٹرنیٹ پر دیکھ رہے ہیں۔ اللہ جانے ا س کی جڑ میں کون سے عوامل ہیں۔ لیکن یہ بات تو مسلّم ہے کہ چینی لوگ اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے اپنی انگلی ہر ممکن طور پر ٹیڑھی کر سکتے ہیں۔ پہلے بھی اس قوم نے اپنی قوم کو ایک بچے کی اجازت کا فرمان جاری کر کے اپنی عوام کو قریبی رشتوں سے ایک مدّت تک محروم رکھا۔ جو کہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اس پالیسی کی وجہ سے خالہ چچا پھوپھو ماموں وغیرہ کا رشتہ ان کے معاشروں میں عنقا ہو گیا ہو گا۔ لیکن ان کو کیا؟

چین ایک نہایت کثیرالآبادی ملک ہے۔ اس کے پاپولیشن اتنی ہے کہ ملک میں سمائے نہ بنے۔ شہروں کی گنجلک اور گنجان آبادی ا س کا دم گھوٹ رہی ہے۔ پانی کے ذخائر کی کمی۔ دوسرے وسائل کی کمی بھی ان کو نظرآ رہی ہے۔ ان کو جگہ درکار ہے۔ آنے و الے زمانوں کے لیے وسائل درکار ہیں۔ ایسے میں طویلے کی بلا بندر کے سر۔

مسلمان جو پہلے ہی اللہ کے چنیدہ ہونے کے زعم میں دوسروں کو قریب قریب حشرات الارض کا درجہ دیتے ہیں اور حقارت سے دیکھتے یعنی خود کو اللہ کا لاڈلا سمجھتے ہیں اوربڑی تعلّی سے یہ حق سمجھتے ہیں کہ کسی کا بھی جو حشر کرنا چاہیں کرییں۔ اپنی ریاست میں غیر مسلموں کو حقوق محدود دیتے ہیں جبکہ دوسروں کے ملک میں اپنے حقوق اور مراعات ٹھوک بجا کر لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔

دیارِ مغرب میں مسلمان مرد ویلفیئر سسٹم پر اورحکومت سے بچوں کے لیے ملنے والے وظائف پرقوّام بنے بیٹھے کئی کئی بیویاں رکھتے ہیں اور اس خیرات کے بل بُوتے پر اپنے کنبوں پربے تاج بادشاہ بنے راج کرتے ہیں۔ انہوں نے ”کفاّر“ سے ملنے و الے اس وظیفے سے بیک وقت اپنے ذاتی ملک میں بھی ایک خاندان پال رکھا ہوتا ہے۔

اس کے باوجود ان میں سے کچھ ایسے احسان فراموش بھی ہوتے ہیں کہ جس تھالی میں کھاتے ہیں ا سی میں چھید کرتے ہیں۔ اورا سی حکومت کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں میں ملوّث نکلتے ہیں۔ یعنی جو ہاتھ ان کو کھلاتا ہے ا سی کو کاٹ لیتے ہیں۔ جبکہ اسلام کہتا ہے کہ کیا احسان کا بدلہ احسان کے سو ابھی کچھ ہے؟ لیکن اسلام ان کی رگوں میں اترا کہاں؟

 چین میں مسلمان خاندانوں کو توڑاجا رہا ہے۔ ان کے گھروں میں چھاپے مار کر افرادِ خانہ کو علیحد ہ کیمپوں میں رکھا جاتا ہے جہاں ان کو دنیا دار بنانے اورسوشل کرنے کے لیے ہر وہ کام کروایا جاتا ہے جو اسلام کے خلاف ہو۔ ناچ گانا کروایا جاتا ہے۔ سنا ہے کہ زبردستی سؤر اور شراب دی جاتی ہے۔ بچوں کو ہوسٹلز میں مان باپ سے الگ تھلگ رکھ کر ان کو خالص چینی طور طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ یقین نہین آرہا کہ یہ اس زمانے کی بات ہو رہی ہے جب کہ پل پل کی خبتٓرس اری دنیا میں پھیل رہی ہوتی ہے۔ کسی دنیا کے امن کے ٹھیکیدار کو اس پہ کوئی اعتراض نہیں۔

چین میں وہ پاکستانی افراد جنہوں نے چینیوں میں شادی کر رکھی ہے موجودہ مسلمان مخالف لہرکے لپیٹے میں آرہے ہیں۔ مگر پاکستانی حکّام ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کا مصداق بنے ہیں۔ پاکستان اپنے ا س نام نہاد دوست کو منع کیوں نہیں کر رہا کہ وہ کم ازکم اس کے شہریوں کو استثنا دے۔ عشروں سے چین میں کاروبار کرنے والے پاکستانی تباہ ہو کر واپس آرہے ہیں۔ وہ لوگ صرف اپنی زندگی کی جمع پونجی اپنی دولت ہی نہیں اپنے بال بچے بھی کھو رہے ہیں ا ور زندہ لاشیں بنے ہوئے ہیں۔ ان کی بیوی بچے ان سے ہمیشہ کے لیے چھن چکے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ چین کی حکومت پر اپنا رسوخ استعمال کر کے چین میں مسلمانوں کو پیش آنے والی مشکلات کو عموماً اور پاکستانی مسلمانوں کی ان مشکلات کو خصوصاً حل کروائے۔

افسوس یہ ہے کہ پاکستان چین کو اپنا خیر خواہ مسجھ کر اندھا دھند اپنے ملک کے ہر معاملے میں گھسا رہا ہے۔ ان کو ہر جگہ ایکسس دے رہا ہے۔ بھلا جو قوم اپنے شہریوں کا یہ حال کرتی ہے پاکستان میں موقع ملنے پر کیا نہیں کرے گی؟

جب وہاں کی حکومتیں کوئی کام کرنے کی ٹھان لیتی ہیں تو سخت اور منظّم طریقے سے عمل درآمد کرواتی ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ ایک کابینہ تشکیل دے دی گئی اور پھر باقی کام کابینہ کے صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔ اور کابینہ کے کرتا دھرتا اپنی مرضی کی سودے بازیاں کر کے کسی کو پکڑے اور کسی کو چھوڑ دے۔

خوف آتا ہے۔ ضیاء الحق صاحب افغانیوں کا تحفہ دے گئے تھے۔ جو کلاشنکوف کلچر اور ہیروئین پاکستان کی رگ رگ میں اتار گیا۔ جس کی دین یہ دہشت گردی ہے۔ طالبان ہیں۔ موجودہ حکومت عوام کو ان چینیوں کا پھندہ نہ دے جائے۔ خدا نخواستہ۔ آمین۔ اللہ کرے کہ حکام ا س پر غور کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).