این آر او کا راستہ صاف کیا جا رہا ہے


این آر او کے کالعدم قانون پر سب سے زیادہ تسلی پاکستانی عوام کو اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ کم از کم خالص میڈ ان پاکستان قانون بنایا گیا۔ باضمیر دانش ور گلہ پھاڑ پھاڑ کر چلاتے رہے کہ این آر او کا چور راستہ دنیا کی تاریخ میں کبھی نہیں اپنایا گیا جسے ہمارے قابل پاکستانی سیاست دان اختیار کرنے میں سب سے زیادہ سکون و عافیت سمجھتے ہیں، لیکن دھت ترے کی، اس معاملے میں بھی ہم پیچھے رہ گئے۔ دراصل این آر او بھی مغرب کی ہی ایجاد ہے۔

یہ مفاہمت کا ہتھکنڈہ جنوبی افریقا کی سیاست سے مستعار لیا گیا ہے، جس میں سیاہ فام حکومت نے سابق گورے حکم رانوں کے ظلم معاف کردیے۔ جنرل پرویز مشرف بھی بظاہر اپنے آپ کو صلح کا دیوتا منوانے کا کھیل کھیلتے ہوئے اُس وقت اپنے خلاف ملکی اور بین الا اقوامی سیاسی منجھدار سے اپنی کشتی سے نکالنے کے چکر میں بینظیر بھٹو صاحبہ کو ملکی سیاست میں واپس لانا چاہتے تھے۔ سو انھوں نے فوجی حکمت عملی استعمال کرتے ہوئے انٹیلی جنس سربراہ اور اپنے نورتنوں سے ماتھا جوڑ کر این آر او کا قانون نافذ کرکے بینظیر بھٹو کو اس بات کی یقین دہانی کے ساتھ وطن واپسی کا جھانسہ دیا کہ اس این آر اوکی مد د سے ان تمام مقدمات کو ختم کردیا جائے گا جو یکم جنوری 1986 سے لے کر 12 اکتوبر 1999 کے درمیان سیاست دانوں پر دائر کیے گئے، جنہیں ہمارے معصوم سیاست دان سیاسی بنیادوں پر قائم کیے جانے والے مقدمات کہہ کر اس بات سے انکاری ہوتے ہیں کہ یہ گناہ انھوں نے کیے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ مقدمات فقط سیاسی مخالفت کے عتاب کا شکار ہونے کی وجہ سے قائم کیے گئے۔

اب ظاہر ہے باقاعدہ قانون کی حیثیت اختیار کرنے بعد اس این آر او سے فقط پیپلزپارٹی کو ہی تو فائدہ حاصل نہ ہوتا۔ سو سیاست دانوں کی ایک بڑی تعداد نے اس پر چپ سادھنے میں ہی عافیت سمجھی۔ یوں اس این آر او کی وجہ سے آٹھ ہزار سیاست دانوں کو گنگا جل میں اشنان کرکے اپنی بدعنوانی اور دیگر سنگین جرائم بشمول قتل اور اقدام قتل جیسے گناہوں سے بھی پاک ہونے کا شرف حاصل ہونا تھا۔ لیکن گنگاجل نے شاید افتخار محمد چوہدری کو اپنے میلے ہوجانے کی دہائی دی اور یوں دو برس کے بعد سپریم کورٹ نے اس آرڈیننس کو مفادعامہ اور آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا، جس کے بعد تمام مقدمات دوبارہ کھل گئے۔

این آر او ختم ہونے کا خمیازہ ایم کیوایم کو بھگتنا پڑا اور اس کی پوری قیادت لپیٹ میں آگئی۔ قانون ختم ہونے کے بعد چونکہ آصف علی زرداری صدر مملکت تھے سو انھیں معصوم ہونے میرا مطلب ہے ان مقدمات سے استثنا کا سرٹیفکیٹ جاری ہوچکا تھا۔ اُس وقت نواز شریف اور زرداری بھائی بھائی کی صدائیں بھی گونج رہی تھیں، سو ہاتھ ہولا رکھا گیا۔

ملک میں ایک بار پھر این آر او کی گونج ہے۔ سیاست دانوں اور بیوروکریسی کی جانب سے کی جانے کرپشن کو لے دے کر معاملے کو ختم کرنے کا نام وہ مفاہمت ہے جس میں کرپشن کو قبول کرتے ہوئے اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ وفاقی وزیر فیصل واوڈا کی جانب سے یہ بھی بیان سامنے آیا ہے کہ نواز شریف کی جانب سے حکومت کو دو سو بلین ڈالر کی واپسی کی پیش کش کی گئی ہے، لیکن اس مفاہمت پر آنے والے ردعمل کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک بار پھر بیک فُٹ پر جاتی دکھائی دے رہی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ دبئی کے دوران ان کی لبنان کے حکمران سعدحریری سے بھی ملاقات ہوئی، اور یہ انکشاف سامنے آیا کہ سعد حریری کی جانب سے ایک بار پھر مفاہمت پر بات گئی کی ہے جس کو حکومت کی جانب سے مسترد کردیا گیا ہے۔ لیکن اب بھی یہ معلوم نہیں کہ طاقت کے ایوانوں میں عوام سے چھپا کر کون سی سازباز جاری ہے، جس میں ہونیو الی اربوں روپے کی کرپشن کروڑوں روپے وصولی کے بعد معافی تلافی کردی جائے گی۔ پوری قوم کھربوں کے قرضے تلے دبی ہوئی ہے ان اربوں ڈالر کے قرضے سودسمیت ادا کررہی ہے، کبھی گیس کی قیمت میں اضافے کے ساتھ، کبھی بجلی کی قیمت میں اضافے کی شکل میں اور کبھی نئے ٹیکس کی شکل میں، جو پوری قوم کی جیبوں سے نکالے جارہی ہے۔

ان سب کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ کہ آخر عمران خان صاحب این آر دے بھی سکتے ہیں یا نہیں۔ عمران خان کا اصل نشانہ تو نواز شریف صاحب یا ان کی پارٹی کی قیادت ہے لیکن اس وقت زرداری صاحب بھی اہم مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ عمران خان کی حکومت میں آتے ہی یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ بہت سے معاملات میں ابھی ہمارے وزیرِاعظم صاحب محدود علم رکھتے ہیں۔ وہ وہی کہتے ہیں جو ان کے وزراء انھیں بتاتے ہیں۔ شاید ابھی انھیں اس بات کا ادراک ہونے میں کچھ وقت لگ جائے کہ ایک ایسا فیصلہ جسے عدالت مسترد کرچکی ہو اسے پھر سے قانونی شکل دینا تقریباً ناممکن ہے۔

ملک کی تاریخ میں جس قانون کو امتیازی قرار دے دیا گیا ہو اسے دوبارہ نافذ کرنے لئے اگر عدلیہ سے رجوع کر بھی لیا جائے تو گزشتہ فیصلے کی روشنی میں اسے مسترد ہی کردیا جائے گا۔ کوئی بھی فیصلہ اس وقت تک قابل عمل نہیں ہوتا جب تک اسٹیٹ کے تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر جمع نہ ہوں سو یہ فقط خان صاحب کی صوابدید پر ہی انحصار نہیں کرتا کہ وہ این آر او دیتے بھی ہیں یا نہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کی اب تک کی حکومتی کارروائی چیخ چیخ کر بیان کرتی ہے کہ قانون کی فکر ہے کس کو جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔

اسی مصرعے کے مطابق حکومت پہلے فیصلے کرتی ہے پھر آئین اور قانون کو دیکھتی ہے۔ خیر این آر او کو ایک طرف رکھیں قانون کو بیچ میں لائے بنا بیک ڈور معاملات تو حل ہوتے دکھائی دے ہی رہے ہیں اور اس کا واضح ثبوت کسی کا جیل سے نکل کر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بن جانا ہے۔ سو آگے بھی اگر ایسا ہی کچھ ہوجائے تو اسے یوٹرن نہیں کہیے گا۔ ظاہر ہے یہ سیاست ہے اور سیاست میں کوئی بھی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ عوام کی اکثریت کا اس وقت خیال یہ ہے کہ سعودی اپنی بارہ سو کروڑ کی رقم کے بدلے نواز شریف صاحب کے لئے این آر او مانگیں گے، لیکن ان شیخوں کو کسی کے جیل میں ہونے یا آزاد ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

انھیں اپنے مفادات عزیز ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت شیخ سے رابطہ کرکے یہ گزارش کرے کہ بھئی آ ہی رہے ہیں تو لگے ہاتھوں ہماری ناؤ بھی پار لگاتے جائیے۔ ایسا ہو سکتا ہے لیکن این آر او کے تحت نہیں یقیناً کوئی چور دروازہ تلاش کرکے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کے قوی امکانات ہیں۔ اب تک سابق وزیر اعظم پر کوئی بڑا الزام ثابت تو نہیں ہوسکا، لیکن ان کی طبیعت بھی ناساز ہے سو بظاہر سب کچھ صاف دکھائی دے رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).