بے چارہ نیب!


حکومت نے ایک بار پھر نیب پر چڑھائی کی ہے اور کہا ہے کہ نیب کی کارکردگی قابل اطمینان نہیں ہے۔ حکومت نیب کے کام پر عدم اطمینان کا اظہار کرتی ہے جبکہ نیب کے چیئرمین اور افسران کا کہنا ہے کہ نیب اتنا کام کر رہا ہے کہ اس کو ”اطمینان“ نصیب ہی نہیں ہوتا۔ دونوں طرف ”عدم اطمینان“ کی کیفیت ہے۔ لہٰذا نیب اور حکومت دونوں کو مل بیٹھ کر ایسی راہیں تلاش کرنی چاہئیں جو ”اطمینان بخش“ ہوں وگرنہ دونوں بے چینی کا شکار ہو کر مشکلات میں گھر سکتے ہیں۔

حکومت کی مشکلات اگرچہ پہلے ہی زیادہ ہیں اور نیب کا کام بھی پہلے ہی بہت مشکل ہے اس لئے دونوں فریقوں کے لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس کرتے ہوئے قوت برداشت پیدا کریں۔ جہاں تک نیب کی کارکردگی کا تعلق ہے تو گزشتہ ایک سال میں نیب نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو دو بار گرفتار کیا ہے اور ان کے خلاف کیس میں ثبوتوں کی بھاری ”گٹھڑیاں“ عدالتوں میں پیش کر کے تھک چکا ہے۔

اسی نیب نے سابق وزیراعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف کو بھی گرفتار کر رکھا ہے اور ان کے خلاف بھی کیسوں کی سماعت بھرپور ثبوتوں اور ”پروٹوکول“ کے ساتھ جاری ہے۔ نیب کی کارکردگی میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن کی گرفتاری بھی شمار کی جاتی ہے اور یہ نیب ہی جس نے اپنی ”پیدائش“ کے بعد پہلی بار سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو گرفتار کیا ہے۔

نیب کی طرف سے کرپشن کے الزام میں گرفتار کی گئی پہلی خاتون ہونے کا اعزاز اب تاحیات محترمہ مریم نواز کے پاس ہی رہے گا۔ اس کے علاوہ نیب نے سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق اور کامران مائیکل کو بھی دھر رکھا ہے۔ نیب پر پہلے یہ الزام تسلسل کے ساتھ لگایا جاتا رہا ہے کہ نیب صرف مسلم لیگ (ن) کے خلاف کام کر رہا ہے جبکہ حکومتی عمائدین کے خلاف نیب نے ”ستو“ پی رکھے ہیں۔

پنجاب کے سینئر صوبائی وزیر علیم خان کی گرفتاری نے اس الزام کو کسی حد تک رد کر دیا تھا مگر اب اپوزیشن راہنماؤں نے نیب کے خلاف ایک نیا راگ ایجاد کیا ہے اور اب کہا جا رہا ہے کہ نیب اپوزیشن راہنماؤں کے خلاف کارروائیوں کو ”بیلنس“ کرنے کے لئے اب حکومت کے دوسری صف کے لیڈروں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔ نیب کے پاس وفاقی وزیر پرویز خٹک کے خلاف بھی کیس کی تفتیش جاری ہے اور چودھری برادران کو بھی طلب کیا جا چکا ہے۔ ماضی میں نیب پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ نیب صرف کمزور لوگوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے یا پھر اپوزیشن میں بیٹھے لوگوں کو ”رگڑا“ لگاتا ہے۔

مگر اس وقت نیب بلا امتیاز کارروائیاں کر رہا ہے اور نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال آج کل لاپتہ افراد کی تلاش کے لئے بنائے گئے کمیشن کے لئے کام کرنے کی بجائے سرکاری عہدوں پر بیٹھ کر کمیشن کھانے والوں کے خلاف زیادہ کام کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت سب سے زیادہ اہم اور رسکی کام جسٹس (ر) جاوید اقبال کر رہے ہیں۔ لاپتہ افراد کے لئے بنائے گئے کمیشن کی سربراہی بھی ان کے پاس ہے جس کی وہ تنخواہ نہیں لیتے البتہ لاپتہ افراد کا ”پتہ“ کروا کر دعائیں بے شمار لیتے ہیں۔ تنخواہ کے لئے وہ سرکاری اور غیر سرکاری لٹیروں کو پکڑنے کے لئے بطور چیئرمین نیب کام کر رہے ہیں۔

جب حکومت اور اپوزیشن کہتی ہے کہ نیب کی پرفارمنس ٹھیک نہیں ہے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے نیب کسی رقاصہ یا پاکستانی کرکٹر کا نام ہے کیونکہ ہمارے قومی راہنماؤں کا کردار ہمیشہ تماشائی کا ہی رہا ہے۔ جسے کبھی کسی رقاصہ کی اداؤں پر اعتراض ہوتا ہے اور کبھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے خلاف ہونے والے وائٹ واش کا دکھ ہوتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو راضی کرنے کے لئے نیب پر لازم نہیں ہے کہ وہ پاؤں میں گھنگھروں باندھ کر رقص کرے بلکہ نیب نے اگر دونوں فریقوں کو خوش رکھنا ہے تو گرفتاریوں کے دو الگ الگ ”سپیل“ مقرر کر دے۔

پہلے ”سپیل“ میں حکومتی بنچوں پر بیٹھے ہوئے قومی لٹیروں کو ہتھکڑیاں پہنائے اور دوسرے ”سپیل“ میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے قومی لٹیروں کو ہتھکڑیوں کے زیور سے آراستہ کرے۔ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں ایک بار حضرت بابا بلھے شاہ ؒ نے اپنے مرشد حضرت پیر عنائیت شاہ ؒ کو راضی کرنے کے لئے پاؤں میں گھنگھروں باندھ کر رقص کیا تھا اور اب اسی سرزمین پر وقت نے کروٹ لی ہے تو نیب کے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی بیک وقت خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنائے۔

اپوزیشن چاہتی ہے کہ چیئرمین نیب جب تک بذات خود ہتھکڑیاں اور اپنے افسران لے کر وزیر اعظم سیکرٹریٹ اور پاک سیکرٹریٹ میں حکومتی عہدیداروں کی گرفتاریاں کرتے ہوئے نظر نہیں آتے اس وقت تک ”تصور انصاف“ کی تکمیل نہیں ہو گی جبکہ حکومت چاہتی ہے کہ نیب سابق حکومتوں میں ہونے والی لوٹ مار کا حساب کرنے کے لئے ”چھومنتر“ کرے اور لوٹا گیا مال برآمد کر کے قومی خزانے میں جمع کروائے تاکہ حکومت اپنے وزیروں اور مشیروں کے ذریعے ہر طرف واہ واہ کروا سکے۔

نیب کے تقریباً 36 افسران اس وقت صرف آصف علی زرداری کے جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات کو مکمل کرنے پر لگے ہوئے ہیں اور اتنے ہی لوگ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کے ”اعمال نامے“ تیار کرنے میں مصروف ہیں اس کے باوجود نیب پر الزام ہے کہ نیب کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔ اس سے بہتر کارکردگی ”بے چارہ نیب“ اور کیا دکھا سکتا ہے؟ حکومت اور اپوزیشن کو غور کرنا چاہیے۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat