کرپشن اور بدعنوانی کی ملاوٹ سے پاک عمرانی چُورن


ہمارے وزیراعظم جناب عمران خان نہایت سادہ اور صاف گو انسان ہیں، جو ان کے دل میں ہوتاہے وہی زبان پر۔ وہ چاہیں تو سپیڈ کی لائٹ سے زیادہ تیز ٹرین چلا دیں اور ارضِ پاک کی سمندری حدود میں گیس دریافت کرتے ہی تیشے کی ایک کاری ضرب سے لیک بھی کروا دیں ( ہم تو آج تک تیشے سے کوہ کن مرتا ہی سنتے آئے تھے ) ۔ بے زبان پودوں کی پیاس بجھانے کے لئے آنسوؤں میں بھیگا دامن نچوڑیں یا سرِراہ بہتے انسانی خون سے دامن بچا کے چلیں۔ ہمارا لیڈر ہے سادہ اور صاف گو، جو دل میں ہو منہ پہ دے مارتا ہے۔

میرے لیڈر کے پاس تاریخ، معاشیات، معاشرت اور نفسیاتی دقیق مسائل کا حل بھی ہے اور آپ مکمل علم بھی رکھتے ہیں۔ آپ ان علوم کے بنیادی ڈھانچے کو فلاحی مقصد کے تحت تبدیل بھی کرتے رہتے ہیں۔ میرے لیڈر کے مطابق ارضِ مقدس کی قرارداد 2008 میں پاس ہوئی اور آپ نے اس کا نام نیا پاکستان تجویز کیا۔ جو اگست 2019 میں معرض وجود میں آیا۔

آپ کی عمرانی بصارت نے اس راز سے پردہ اٹھایا کہ قبل از 2008 کے 60 برس میں یہ خطہ 30 برس تک سیاسی آمروں کے قبضے میں رہا اور باقی کا عرصہ ہم نظریاتی سرحدوں کی حفاطت اور عالمی امن کی خاطر کرائے کی بندوق اٹھائے فرنٹ لائن میں کھڑے رہے۔ (تاریخ کے اس حساس دور پر لب کشائی کی ہمت جس نے بھی کی اس کا انجام تاریخ میں رقم ہے۔ میمو گیٹ گیلانی صاحب کے لئے بند دروازہ ثابت ہوا اور ڈان لیکس کب پانامہ لیکس میں بدلی کچھ سمجھ ہی نہیں آئی۔ )

میرا لیڈر انتہائی دلیر اور بہادر بھی تو ہے وہ پنڈی میں سجے پنڈال کے سامنے سینہ تان کے یہ سچائی نہ صرف بیان کرتا ہے بلکہ آئندہ کرائے کی بندوق نہ اٹھانے کی قسم کھاتا ہے۔ اور یہ وعدہ کرتا ہے اب ہم عزت اور وقار کے ساتھ صرف اور صرف مال غنیمت سے اپنا حصہ لیں گے۔ عالم اسلام کی سب سے بڑی جلالی قوت فارغ بھی تو نہیں رہ سکتی۔ یہ جن تو ہر وقت بوتل سے باہر رہتا ہے اور ایک ہی آواز لگاتار لگاتا جا رہا ہے کہ، مجھے کام بتاؤ، میں کیا کروں، میں کس کو کھاؤں؟ اب لگتا ہے اس جن کو کام مل گیا ہے۔ تبھی تو عرب شہزادے میرے لیڈر کی محبت میں گرفتار ہیں۔

معاشی گورکھ دھندا کی سوجھ بوجھ بھی کمال ہے میرے لیڈر کی گذشتہ دس برس کا مکمل حساب رکھا ہوا ہے پچیس تیس ہزار ارب روپے تو ایسے ہی اِدھر اُدھر کر لیتے تھے شریف و زرداری جیسے کوئی طاقت ور رسا گیر غریب کی بھینس کر لیتا تھا۔ اسی لیے خزانہ خالی ہوا ہے۔ اب اُسے بھرنے کے لئے میرے لیڈر نے کمال مہارت سے اپنے تیس سالہ تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے ’عرب ڈالروں‘ کی زکوۃٰ حاصل کی۔ بلکہ، دوسری دنیا سے منسلک معاشروں کے نفسیاتی رجحان کو بھی سمجھا اور اس نتیجے پر پہنچے میں کامیاب ہوئے کہ، بغیر محنت اور کرپشن کیے بھی اگر بنی گالا آباد کیا جا سکتا ہے تو ارضِ مقدس کو بنی گالا کیوں کر نہیں بنایا جا سکتا۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ میرا لیڈر ہوم انڈسٹری کی اہمیت و افادیت سے واقفیت نہیں رکھتا بلکہ آپ نے تو ماحول دوست، افرادی قوت دورِ جدید کی مکینکل لوازمات کو ترک کرتے ہوئے ایک خوشحالی پروگرام کی ابتداء بھی کر دی ہے۔ آپ نے چار مرغیوں پر ایک عدد شرعی حاکم مرغا محرم بنا کر تقسیم کرنا شروع کر دیا ہے۔ معیشت کے عالم چنا جناب اسد عمر صاحب آئی ایم ایف کو روز اس کی اوقات دیکھاتے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ قرض اپنی شرائط ملنے کی خوشخبری بھی دیتے ہیں۔

میرا لیڈر سرمایہ دارانہ نظام بھی کا سخت ناقد ہے اسی لئے تو کوئی ایسا معاشی منصوبہ نہیں دیا جو چھوٹی یا بڑی صنعتوں کو فروغ دے سکے۔ البتہ فرنس آئل کی برآمد کو ہماری معیشت کے لیے زہر قاتل قرار دیتے ہوئے بندش لگانے کی تجویز عملی صورت اپنانے والی ہے۔ موسم گرما میں لوڈشیڈنگ کرنے کا پہلے ہی انتظام کیا جا رہا ہے تا کہ سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ استفادہ حاصل کرتے ہوئے وٹامن ڈی فطری طریقے سے حاصل کیا جا سکے اور ایسی صنعتوں کو فروغ دیا جائے جو بجلی اور گیس کی بجائے آکسیجن اور دھوپ میں چل سکیں۔ آخر جاندار مشینیں بھی تو انہیں فطری عوامل کے سہارے زندہ ہیں۔ اس کا ایک فائدہ بھی ہے نہ انڈسٹری ہو گی اور نہ سرمایہ دار مملکت میں رہے گا۔

میرے لیڈر کی ٹیم بھی تو جوان ہے، اب مراد سعید کو ہی لیجیے فنِ خطبات میں آپ کا کوئی ثانی نہیں۔ پنجاب کا چیتا فیاض الحسن چوہان بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ بنی اگلا کے عظیم دانشور نعیم الحق صاحب بھی تو ثبوت لہرا رہے ہیں کہ کس طرح وزیراعلی سندھ نے سابق صدر زرداری کا چالیس ارب ماہانہ وظیفہ مقرر کیا تھا۔ اینٹ سے اینٹ بجا دینے والا مرد حُر کیسے اکاؤنٹ سے اکاؤنٹ کا حساب دے رہا۔

میرے لیڈر کی حب الوطنی پر بھی شک نہیں کیا جا سکتا۔ اب تک جیتنا بھی مال غنیمت اور خیرات اکٹھی کی گئی ہے۔ وہ وطنِ عزیر کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت پر خرچ کی گئی ہے۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ اسی جذبے پر عمل جاری رہے گا۔ چمن میں ایسا دیدہ ور ہزاورں برس پر محیط نرگسی تپسیا کا حاصل ہے۔ اے قوم گھبرانا نہیں، ’میں ہوں نہ۔ ‘ اور اگر یہ چُورن افاقہ نہ دے سکے تو پیسے واپس۔

میرا لیڈر کمال مہارت سے ایمانداری کا سرٹیفکیٹ گلے میں لٹکائے کرپشن، بدعنوانی اور ملاوٹ سے پاک یہ چُورن جہلم کے پل پہ کھڑے ہو کر کم نرخ میں فروخت کر رہا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس عوام کو کس قسم کی بدہضمی ہے۔ وہ یہ چُورن پچھلے دس سال سے فروخت کرتے آ رہے ہیں اور اب تو ان کی فرنچائزز پوری مملکت میں کام کر رہی ہیں تاکہ اِس شوروغل میں حقیقی مسائل پر یکسوئی سے کام کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).