محمود درویش: گم شدہ وطن کی یاد میں!


فلسطینیوں کی ابتلا اور جدوجہد اور محمود درویش کا نام اور کلام اب لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں۔ محمود درویش کی شاعری صرف غم اور احتجاج تک محدود نہیں۔ اس میں جلاوطنی روداد، وطنِ مالوف کی بربادی، غاصبوں کی تعدی، ناتمام محبتیں، اشتیاق، فراق اور زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں سبھی شامل ہیں۔ ان سب میں مل کر ایک بڑا کینوس ترتیب دیا ہے جس کا چپہ چپہ جاذبِ نظر ہے۔

لسطینی ادب میں محمود درویش کی حیثیت منفرد ہے۔ وہ ایسا شاعر ہے جس کی مقبولیت صرف ادبی حلقوں تک محدود نہیں۔ اس کی نظمیں عوام الناس کا دل بھی جیت چکی ہیں۔ مزدور اور طالب علم تک ان پر فریفتہ ہیں۔ وجہ یہ کہ لکھنے والے اور اسے پڑھنے والوں کا مقدر مشترکہ ہے۔ وہ بھی صورتِ حال کے مارے ہوئے گرفتار ہیں ان کی ذہنی، جذباتی، جسمانی اذیتوں، ان کے خوابوں، آدرشوں اور امنگوں کو محمود درویش نے لفظوں کا ایسا جامہ پہنایا ہے جو کبھی ریشم کی طرح نرم اور کبھی آہن کی طرح سخت ہے۔

محمود درویش 1942ء میں بروہ نامی گاؤں میں پیدا ہوا جو فلسطین کے ضلع عقہ میں واقع ہے۔ ابھی چھ برس کا ہوا تھا کہ اس کے گاؤں پر آفتوں کا نزول ہوا۔ اسرائیلی فوج نے سینکڑوں فلسطینی دیہات کی طرح محمود درویش کے گاؤں پر بھی قبضہ کر لیا اور دہشت گردی کا آغاز کیا تاکہ جو اصل باشندے ہیں وہ خوف زدہ ہو کر بھاگ جائیں۔ قتل و غارت سے بچنے کے لیے اس کا کنبہ لبنان فرار ہو گیا۔ وقتی طور پر امن قائم ہوا تو گھر والوں نے لوٹنے میں تاخیر کر دی۔ اسرائیل کی مردم شماری میں شامل ہونے سے رہ گئے اور غیرقانونی پناہ گزین قرار پائے۔ نتیجہ یہ کہ جب 1971ء میں محمود درویش نے بالآخر اسرائیل کو خیرباد کہا تو اس دوران میں وہ بارہا جیل کی ہوا کھا چکا تھا۔ اب اس کا گاؤں بروہ کھنڈر کے سوا کچھ نہیں رہا۔ وہ سارے نشانات مٹ گئے جو شاعر کے حافظے میں تر و تازہ تھے اور تر و تازہ رہیں گے۔

ہر اہم شاعر کے ہاں، بروے ایام کے ساتھ، پیرایۂ اظہار تھوڑا تھوڑا کر کے بدلتا رہتا ہے۔ پہلے محمود درویش کا اندازِ بیان براہِ راست اور مخاطبانہ تھا لیکن بعد میں اس کے ہاں تھوڑی سی ٹیڑھ آ گئی اور ابہام در آیا۔ شاعری جتنی گہری ہو گی، اتنی تہہ دار ہوتی جائے گی اور اس تہہ داری کے جلاؤ میں ابہام کا پروان چڑھنا ناگزیر ہے۔ فلسطین کی سرزمین کہیں اس کی محبوبہ بن جاتی ہے اور کہیں ماں جس کے ہاتھ کی بنی ہوئی روٹی اور کافی کو وہ ترستا ہے۔ اپنی زمین سے متعلقہ بہت سی تشبیہات اور خیالی پیکر شعری استعارات اور علامتیں بن جاتے ہے۔ مثلاً گھر، ماں، روٹی، پانی، پھل، مٹی، ریت، زیتون، درخت، گھوڑا، ستارہ، دھوپ، خون اور زخم۔ محمود درویش کی نظمیں چھوٹے چھوٹے زخم ہیں جن سے خون بہتا رہتا ہے اور موجِ خون میں قلم ڈبو کر اس نے وطن کی لہولہان تصویر مکمل کی ہے۔ ان نظموں میں جن مصاورتوں کا قصہ ہے وہ جلاوطنی سے عبارت ہیں۔

فاروق حسن خود بھی اچھے شاعر تھے۔ ان کا شمار جدید اردو ادب کے بہتر نظم گو شعرا میں کیا جا سکتا ہے۔ چوں کہ وہ عرصہ دراز سے پاکستان سے باہر رہے اور کبھی پاکستان کے خودساختہ ادبی حلقوں میں قدم رکھنے اور نام نہاد ادبی نقادوں سے مراسم بڑھانے کی کوشش نہیں کی۔ اس لیے ان کے شعری مرتبے سے اغماض برتا گیا۔ اس سے پہلے وہ مشہور ترکی شاعر ناظم حکمت کی منتخب نظموں کو اردو میں ترجمہ کر چکے تھے۔ محمود درویش کی نظموں کو ترجمہ کرتے وقت انھوں نے عربی متن کو بھی سامنے رکھا۔ عربی کے بہت سے الفاظ ہمارے لیے غیرمانوس نہیں۔ تاہم یہ سوچ کر کہ وہ عربی سے صحیح طور پر واقف نہیں انھوں نے میکگل یونیورسٹی کے عربی کے ایک پروفیسر، ڈاکٹر عیسیٰ بلاطہ، سے راہنمائی حاصل کی۔ کوشش تو فاروق حسن کی یہی تھی کہ اصل متن سے قریب رہا جائے لیکن جیسا کہ انھوں نے خود تسلیم کیا ہے، کہیں کہیں بے تکلفی بھی برتی ہے۔ ظاہر ہے اس بے تکلفی یا اصل سے انحراف کی نشاندہی پاکستانی قارئین نہیں کرسکتے۔ تراجم نہایت رواں ہیں اور نظموں کے پُرتاثیر ہونے میں تو کوئی شبہ ہے ہی نہیں۔ خود مترجم کا رویہ محمود درویش کے بارے میں خاصا پُرجوش ہے۔ یقین ہے کہ یہ انتخاب اس اہم فلسطینی شاعر کے تعارف کا حق ادا کرنے میں کامیاب رہے گا۔ کتاب کی پروڈکشن عمدہ ہے۔ پروف کی غلطیاں نہیں جو عموماً اردو کتب کو داغدار کرتی رہتی ہیں۔ یہاں اس ترجمے کا ایک نمونہ ملاحظہ کریں :

                دور اُفتادہ شہر میں اجنبی

جب میں جوان تھا

اور خوب رُو تھا

گلاب کا پھول میرا گھر ہوا کرتا تھا

اور چشمے میں میرے لیے سمندر تھے۔

گلاب کا پھول ایک زخم بن گیا

چشمے پیاس میں تبدیل ہو گئے

 ”کیا تم بہت بدل گئے ہو؟ “

 ”نہیں، اتنا نہیں۔ “

جب ہم آندھی کی صورت

واپس اپنے گھر لوٹیں گے

میرے ماتھے کو غور سے دیکھنا

گلاب کا پھول کھجور بن گیا ہوگا

اور چشمے پسینہ۔

اور مجھے ویسا ہی پاؤ گے

جیسا میں ہوا کرتا تھا:

جوان اور خوب رُو۔

اپنی زمین کی تلاش میں، محمود درویش کی ستتر نظمیں، ترجمہ: فاروق حسن، ناشر: قوسین، لاہور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).