اصلی بیچاری تو نگہت تھی


تمھیں کس بات کی پرواہ ہے میں ہوں ناں۔ میں سب سنبھال لوں گا بس تم ہاں کر دو۔ تمھیں کیا لگتا ہے میں تمھارا دشمن ہوں۔ تمھار ا پھوپھا ہوں۔ تم کیا چاہتی ہو یہ ساری جائیداد کسی کے بھی کام نہ آئے۔ دیکھو حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں اور حقیقت یہ ہے کہ تمھارا خاوند چند مہینوں کا ہی مہمان ہے۔ ہم چاہ کر بھی اس کو نہیں بچا پائیں گے اور پھر یہ گھر دکانیں زمین تم کیا سمجھتی ہو اسی طرح تمھارے پاس ہی رہے گی۔ سوچنا بھی نہ۔ تمھارے خاوند کے مرنے کے بعد تمھارا مستقبل کیا ہے کبھی سوچا ہے۔ بھکاریوں کی طرح در در دھکے کھاؤ گی۔ عزت سے جینا چاہتی ہو تو میری بات مان لو۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ اگر جمیل مر گیا تو پھر ہم یہ سب بھی نہیں کر سکیں گے جو میرا پلان ہے۔

تمھارے خاوند کو ٹی بی ہے دمہ ہے شوگر سے اس کی ہڈیاں بھربھری ہو کر ختم ہو رہی ہیں۔ اتنے گلاس وہ دن میں پانی کے نہیں پیتا جتنے سیرپ پیتا ہے اور انجکشن لگواتا ہے۔ اب تو مجھے تمھارے ہاتھوں اور کپڑوں سے بھی دواؤں کی گندی بدبو آرہی ہے۔ کب تک دوائیوں کے سہارے اسے زندہ رکھو گی۔ کل میری ڈاکٹر سے بات ہوئی ہے اب تو دوائیاں کھا کھا کے اس کے دونوں گردے بھی مکمل ناکارہ ہو چکے ہیں تم سمجھتی کیوں نہیں ہو۔

شگفتہ بے بسی کی تصویر بنی سر جھکائے اپنے پھوپھا کی ساری کڑوی کسیلی اور کسی حد تک سچی باتیں سن کر بھرائی ہوئی آواز میں بولتی ہے۔ تو بتائیں اس میں قصور کس کا ہے۔ جب میری شادی ہوئی اس وقت بھی یہ ساری بیماریاں اسی طرح تھیں سب کو پتہ تھا کہ میں بیوی بن کر نہیں ایک دوائی پلانے والی نرس بن کر اس گھر سے رخصت ہوئی تھی اب میرے ہاتھوں اور کپڑوں سے دواؤں کی بدبو کے علاوہ اور کوئی خوشبو آئے بھی تو کیسے آئے۔ میری اماں میرے ابا زندہ ہوتے تو میرا بیاہ کبھی جمیل سے نہ کرتے۔

پھوپھا جی یہ بیاہ بھی تو تیرا ہی کیا دھرا ہے۔ کیا سوچ کر تم نے مجھ یتیم لاوارث کا اس ہڈیوں کے ڈھانچے سے بیاہ کیا تھا جمیل شادی کے بعد بیمار ہوتا تو میں اسے اپنا نصیب سمجھ کر قبول کر لیتی مگر اب میں کیا کروں مجھے تو کسی نے جمیل کو ایک نظر دیکھنے بھی نہ دیا پھوپھا میں تمھارے لالچ کی بھینٹ چڑھ گئی بتا تو سہی کتنے پیسے لیے تھے تم نے میری کیا قیمت لگائی تھی کیوں میرے ساتھ ہمدردیاں جتانے آجاتے ہو مجھے چپ چاپ اس آگ میں جلنے دو جس میں تم نے مجھے جھونک دیا تھا۔

جمیل کی پہلی بیوی بھی ان بیماریوں کی وجہ سے جمیل کو چھوڑ گئی تھی اگر مجھ سے جمیل کی اولاد نہیں تو یہ کوئی عجیب بات نہیں جمیل کی پہلی بیوی سے بھی کوئی اولاد نہ تھی۔ میں تمھارے گھر میں بوجھ تھی سو تم نے اپنے کندھے سے اتا ر دیا اب کیا چاہتے ہو۔ شگفتہ مسلسل ہچکیاں لیتے ہوئے کسی معصوم سے بچے کی طرح اپنے پھوپھا سے کہہ رہی تھی تم لوگ سب جانتے تھے پھوپھا تم سب جانتے تھے۔ روپے پیسے کی چمک سے تیری آنکھیں چندھیا گئی تھی پھوپھا۔

دیکھو شگفتہ تم رانیوں کی طرح رہ رہی ہو کس چیز کی کمی ہے یہاں تمھیں۔ یہ دیکھو ریشمی قالین، یہ دیکھو مہنگے فانوس۔ یہ نوکر چاکر سب تمھارے لیے ہے شہزادیوں کی طرح زندگی گزار رہی ہو۔ کبھی اپنا بینک اکاونٹ دیکھا ہے۔ کبھی سوچا تھا تم نے کہ اتنا پیسہ تمھیں مل سکتا ہے۔ کبھی سوچا تھا کہ یہ سب آسائیشیں تمھیں ملیں گی۔ اگر تم جمیل سے شادی نہ کرتی تو غربت کی چکی میں پس پس کر کسی ویران خستہ حال کھنڈر جیسی ہو چکی ہوتی جہاں صر ف بھوت آسیب رہا کرتے ہیں غریب گھروں کی بیٹیوں کو تو خواب دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی اور پھر جس غریب بیٹی کا باپ مر جاتا ہے ناں وہ کسی ایک پہ نہیں پورے معاشرے پہ بوجھ ہوا کرتی ہے یہ دنیا انسانوں کی ہے فرشتے صرف آسمانوں میں یا کتابوں میں ہوتے ہیں۔

میں نے جو بہتر سمجھا کر دیا۔ اگر جمیل سے تمھار ا بیاہ نہ ہوتا تو کوئی تمھاری طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھتا تم ہی بتاؤ کوئی ایک رشتہ بھی آیا تھا جو میں نے ٹھکرا دیا ہو تمھاری ڈھلتی عمر دیکھ کر میں نے جو فیصلہ کیا تھا وہی تمھارے لیے میرے لیے ہم سب کے لیے ٹھیک تھا۔ میری بات مان کر تم نقصان میں نہیں ہو۔ اپنا لباس دیکھو یہ گہنے کبھی تم نے خواب میں بھی دیکھے تھے جو تم روز پہنتی اور جب چاہتی ہو پرانے بیچ کر نئے خرید لیتی ہو۔

میں اب بھی جو کروں گا تمھارے بھلے کے لیے ہی کروں گا۔ اگر تم چاہتی ہو کہ یہ سب ہمیشہ تمھارے پاس رہے یہ نوکر چاکر بنگلہ گاڑی بینک بیلنس کوئی تم سے نہ چھینے تو ابھی وقت ہے میری بات مان لو۔ تم کیا سمجھتی ہو جمیل کے بھائی بھابیاں تمھیں اچھا چاہتے ہیں۔ آج جمیل کو آنکھیں بند کرنے دو یہ لوگ تمھیں دھکے مار مار کر اس حویلی سے نکال دیں گے یا نوکروں والے کوارٹر میں کباڑ کی طرح کہیں پڑی رہو گی۔

پھوپھا جی میرے باپ کے مرنے کے بعد میں نے تمھیں ابا کا اور پھوپھی کو اماں کا درجہ دیا ہے تمھاری ہر بات حکم سمجھ کر مانی بتاؤ اب تم کس آگ میں جھونکنا چاہتے ہو۔ کیا کرنا چاہتے ہو۔ یا مجھ سے کیا کروانا چاہتے ہو۔ تم جو بھی کہو میں کرنے کو تیار ہوں۔

شگفتہ کا پھوپھا اپنے مکار چہرے پہ معنی خیز مسکراہٹ لاکر بڑے دھیمے لہجے میں کہتا ہے دیکھو شگفتہ تمھاری پھوپھی امید سے ہے اور میں چاہتا ہوں تم بھی امید سے ہونے کا ڈرامہ کرو۔ تمھارے اور میرے سوا کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوگی اور جس دن تمھاری پھوپھی کے گھر اولاد پیدا ہوگی میں چپکے سے تمھارے ساتھ لاکر ڈال دوں گا۔ تمھارے پیٹ میں جو رسولی ہے اس کا فائدہ اٹھاؤ۔ میں سب بندو بست کر لوں گا جس ہسپتال میں تمھاری پھوپھی کا آپریشن ہوگا اس دن اسی ہسپتال میں تمھارا رسولی کا آپریشن کروائیں گے بس تم ہاں کرو اور باقی مجھ پہ چھوڑ دو۔ سب سمجھیں گے یہ اولاد تمھاری اور جمیل کی ہے۔ اس طرح اگر جمیل مر بھی گیا تو تمھارے حصے کی یہ ساری جائیداد ہمارے پاس رہ جائے گی۔ جمیل کے آنکھیں بند کرنے سے پہلے اس جائیداد کا وارث پیدا کر نا ہوگا۔ شگفتہ تم سمجھ رہی ہو نہ۔ شگفتہ نے منہ سے کچھ بھی کہے بغیر اثبات میں سر ہلا دیا۔

مبار ک ہو جمیل تم باپ بننے والے ہو۔ شگفتہ نے جمیل کو خوش خبری سنائی جمیل یہ خبر سنتے ہی جیسے خوشی سے پاگل ہوگیا۔ اپنی کھانسی کو روکتے ہوئے لیٹے لیٹے کروٹ بدل کر جمیل نے شگفتہ کو بازو سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا شگفتہ کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں بڑے پیار سے پکڑ کر انتہائی جذباتی انداز میں کہنے لگا شگفتہ تم نے یہ خبر سنا کر مجھے جینے کی امید دے دی ہے شاید اب میں کچھ سال اور جی سکوں گا بس آج سے تم کوئی کام نہیں کرو گی بس میرے سامنے رہو گی میری اس امانت کا بہت خیال رکھنا شگفتہ شاید یہ میری زندگی کی آخری خوش خبری ہے جو تم نے ابھی مجھے سنائی اب تمھاری خوراک کا صحت کا اور باقی ہر طرح کا خیال میں خود رکھوں گا۔ تمھارے دم سے میرے گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔ اب روز ڈاکڑ تمھیں چیک کرنے آیا کرے گا۔ میں ہر طرح کا بندوبست آج ہی کرلوں گا۔ شگفتہ یہ خوشی جلدی میری جھولی میں ڈال دو۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2