بے حس معاشرہ کی بھینٹ: رمشا وسان


اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے باوجود معاشرہ قرونِ وسطی کی جاگیرداری اورسرداری معاشرتی روایات کے تابع دکھائی دیتا ہے۔ ان روایات میں سے ایک انتہائی سفاک اور غیر انسانی روایت آج بھی جاری اور توانا ہے جو پاکستان کے صوبوں میں مختلف ناموں خیبر پختونخواہ میں طور طورہ، بلوچستان میں سیاہ کاری، پنجاب میں کالا کالی اور سندھ میں کارو کاری سے نمایاں ہیں جس کا زیادہ تر شکار خواتین ہی بنتی چلی آرہی ہیں اور قانون کی بالادستی نہ ہونے اور معاشرہ کی بے حسی، بزدلی کے سبب یہ جرم پورے ملک میں تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔

سندھ میں وڈیرے اور اس کے گماشتے اپنے مفادات مثلاً جائیداد پر قبضہ کرنے کے لئے، رشتے سے انکارکرنے پر، لڑکی کی پسند کی شادی کرنے پر، لڑکی کے ناجائز تعلقات قائم کرنے سے انکار پر وغیرہ یا کسی مرد سے دشمنی نکالنے وغیرہ کی خاطر ماں، بیٹی، بہن، بیوی یا کسی اور عورت یا مرد پر کاروکاری کے جھوٹے الزامات لگا کر انہیں قتل کر دیتے ہیں اور لاشوں کو غسل اور نمازِجنازہ پڑھائے بغیر گڑھے میں ڈال کر مٹی سے گڑھے بھردیے جاتے ہیں۔

یہ وڈیرے اور ان کے غلام اتنے ظالم ہوتے ہیں کہ بے قصوروں کو مارنے کے بعد بھی نہیں بخشتے تاکہ عوام پر ان کی ظالمانہ حاکمیت مزید مضبوط رہے جس کا ایک ثبوت میڈیا رپورٹ کے مطابق سندھ کے ضلع گھوٹکی کی تحصیل ڈہرکی کے ایک نواحی علاقے میں ”فتو شاہ“ قبرستا ن ہے جس کو کاریوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام نہاد زندہ معاشرے کو مردہ ثابت کرتا ہے۔

کارو کاری کے واقعات میں زیادہ تر قاتل آزاد ی سے دندناتے پھرتے ہیں کیوں کہ اول تو کیس تھانے تک جاتا ہی نہیں ہے معاملہ نمٹانے کے لئے جرگہ بٹھا یاجاتا ہے جس کے ظاہری اور پسِ پردہ سرپرست با اثر وڈیرے ہوتے ہیں جو لالچ یا دیگر حربوں سے مقتول کے گھر والوں کوچپ کرا کرقاتل کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں اس لئے بیشتر کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوپاتے ہیں۔

بالفرض میڈیا یا عوامی دباؤ کے تحت معاملہ تھانے پہنچ بھی جائے تو یہاں بھی وڈیروں کی جیت ہوتی ہے کیوں کہ یہ وڈیرے اسمبلیوں میں بھی موجود ہوتے ہیں اور اگر کوئی ایماندار اور نڈر پولیس افسر یا سپاہی ان کے راستے کی رکاوٹ بنے تو اپنے اثر و رسوخ سے جلد اُس کا تبادلہ کردیتے ہیں لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے زیادہ ترتھانے پر افسران اور سپاہیوں کی تعیناتی وڈیرے ہی کراتے ہیں لہذا وڈیرے کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے یہ افسران پوری کوشش کرتے ہیں کہ کیس درج نہ ہو اور مجبوراً کیس درج کرنا پڑے تو اُس میں دانستہ اتنی خامیاں رہنے دیتے ہیں کہ قاتل عدالت سے جلد آزاد ہوجائیں اور یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے کہ وڈیروں کا اثر و رسوخ عدالتوں تک بھی ہوتا ہے۔ یوں ہر طریقے سے یہ قاتل آزاد ہوکر ظالم وڈیروں کے زیرِ سایہ وڈیروں کا مزید خوف عوام پر مسلط کرنے کے لئے پہلے سے زیادہ بے شرمی سے ظالمانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔

ماہ فروری میں سندھ کے ضلع خیرپور جو کہ پی پی پی کے سابق وزیر اعلی قائم علی شاہ، موجودہ رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ، رکن صوبائی اسمبلی منظور وسان سمیت دیگر بڑی شخصیات کے ضلع سے بھی پہچانا جاتا ہے میں نام نہاد غیرت کے نام پر ایک اندوہناک ”رمشا وسان کیس“ سامنے آیا جو قانون سمیت ہمارے بے حس، بزدل معاشرے کے منہ پر مزید ایک شرمناک تمانچہ ہے۔ رمشا وسان کیس میں پہلے رمشا وسان کے اغوا پر پولیس کا پانچ روز مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھنا، رمشاوسان کے قتل کے بعد سندھ اسمبلی پر قابض وڈیروں کی جانب سے اپوزیشن کی ایک دلیر خاتون رُکن نصرت سحر عباسی کو اسمبلی میں مذمتی قرار داد پیش نہ کرنے دینا، میڈیا کے ذریعے معاملہ دنیا کے سامنے آجانے پر بھی تاخیر سے پولیس کا غیرت کے نام پر قتل کی ایف آئی آر درج کرنا اور کئی روز بعد قاتل کو با اثروڈیرے کے ڈیرے سے پولیس کی حفاظتی تحویل میں دیے جانے سے بصیرت رکھنے والوں کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جلد ہی رمشا وسان کے قاتل جرائم پیشہ ذوالفقار وسان اور اس کے ساتھی رہا ہوجائیں گے۔

اس تمام داستانِ الم کے خلاف آواز بلند کرنے کی ذمہ داری پہلے سول سوسائٹی پر عائد ہوتی ہے پھرخواتین کے حقوق کے تحفظ کی علمبردارغیر سرکاری تنظیمیں پھر وہ علمائے کرام اور اسلامی تنظیمیں جو اسلام میں مرد اور عورت کے مساوی حقوق کی تبلیغ کرتی ہیں پھر عدلیہ، پولیس اور متعلقہ محکمے ہیں جو کسی ظالم، جاہل، وحشی سردار، جاگیردار، وڈیرے یا ان کے ہرکاروں کے آگے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ مگر شرم ان کو نہیں آتی۔

کچھ سالوں قبل کراچی میں معروف ادبی تنظیم دائرہ ادب و ثقافت نے کاروکاری پر ایک پروگرام منعقد کیا تھا جس میں کراچی کے علاوہ اندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والی عورتوں کے حقوق کی علمبردارکئی نامور شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا لیکن اندرونِ سندھ کی ان بہادر شخصیات میں سے ایک نے بھی انسانیت کو بچانے (جس کا درس اسلام بھی دیتا ہے ) کے اس اہم پروگرام میں شرکت نہیں کی۔

پاکستان میں شاعروں کی بہتات ہوگئی ہے نثر نگار غائب ہوتے جارہے ہیں جب کہ اہلِ قلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ گُل و بُلبُل اور ہجر و فراق کے جھروکوں سے باہر آکر سماجی مسائل کا سامنا کریں اور ان کے حل کے لئے اپنا قلم، علمی بصیرت اور عوام کی آواز کو استعمال کرکے غریب عوام کا حوصلہ بڑھائیں اور ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اُٹھائیں نہ کہ چندہ خور جعلی ادبی تنظیموں اور جعلی ایوارڈ کی آس میں زبان بند کر کے اپنا قلم ان نو سر بازوں کے پاس رہن رکھیں۔ یہ اہلِ قلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ حق کا ساتھ دیں اور مظلوموں کی پیروی کریں۔

واضح رہے کہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، عورت فاؤنڈیشن اور میڈیا سے دستیاب معلومات کے مطابق ملک بھر میں سال 2015 ء سے اب تک قریباً 1000 خواتین و مرد اس غیر انسانی رسم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جس میں خواتین کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے جبکہ اکتوبر 2016 ء میں کاروکاری کے حوالے سے نیا قانون بھی بن چکا ہے۔ مذکورہ تعداد ہمارے معاشرے کی مجموعی بے حسی اور بزدلی کا بھیانک آئینہ ہے جس میں اپنا عکس دیکھنے سے نام نہاد زندہ، بہادر اور غیرت مند معاشرہ کتراتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).