پاکستان کو پولیس اسٹیٹ نہ بننے دیا جائے


چھ فروری کو سوشل میڈیا، ٹوئٹر اور فیس بک پہ ایک ویڈیو وائرل ہوگئے، جس میں ایک داڑھی والا بندا ایک نوجوان کو سیدھی گولیاں مار رہا تھا، ساتھ ہی کھڑے پولیس اہلکار تماشا دیکھنے میں مصروف تھے۔ خون سے لت پت وہ نوجوان اپنی زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے فریاد کر رہا تھا کہ، مجھے ہسپتال لے چلو۔ لیکن گولیاں چلانے والا شخص کہتا ہے کہ، اسے مرنے دو۔ تاہم اس شخص کا حکم بجا لاتے ہوئے پولیس سب انسپیکٹر ریاض حسین اسے ہسپتال کہ شعبہ حادثات میں لے جانے کے بجائے، اسے شاہ لطیف تھانے لے جاتے ہیں، جہاں وہ چھ گولیوں کے زخموں کی تاب نہ لاتے وہیں پہ دم توڑ دیتا ہے۔ وہ مر جانے والا نوجوان دادو کا مقیم ارشاد رانجھانی تھا۔ 2010ء میں وہ ﺟﯿﮯ ﺳﻨﺪﮪ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮا ﺍﻭﺭ ﺍسی ﺗﻨﻈﯿﻢ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﮈﻭﯾﮋﻥ ﮐﺎ ﺻﺪﺭ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ تھا۔

ارشاد کو گولیوں سے مارنے والا سفاک اور بے رحم شخص کا نام رحیم ہے۔ جو کہ مالک کائنات کی صفتوں کے نام میں سے ایک نام ہے، جس کی معنی ہے رحم کرنے والا۔ رحیم شاہ کا تعلق لکی مروت سے ہے۔ وہ کراچی کی بھینس کالونی میں رہتے ہیں، ان کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے، اور ابھی وہ دوسری مرتبہ یونین ﮐﻮﻧﺴﻞ ﻻﻧﮉﮬﯽ کے چئیرمین منتخب ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ارشاد ایک ڈکیت تھا، اس لیے اس نے اپنا دفاع کرتے ہوئے فائر کیا، لہذا وہ بے گناہ ہے۔

پر کیا ڈکیت کو جان سے مار دینے کا کوئی قانون بھی ہے کیا؟ رحیم شاہ نے ساری باتوں کو جھٹلا دیا جس میں وہ پولیس اہلکاروں کو اسے ہسپتال لے جانے سے منع کر رہا ہے۔ حد تو یہ تھی کہ، انسانی ہمدردی کی بنیاد پہ، پولیس جو کہ عوام کے جان و مال کی محافظ ہے، انہوں نے بھی اتنی زحمت نہ کی کہ زخمی کو تھانے کے بجائے، اسے ہسپتال لے جائیں۔ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﻧﮯ ﺟﺎﺋﮯ ﻭﻗﻮﻉ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺯﺧﻤﯽ ارشاد ﮐﻮ ﺗﮭﺎﻧﮯ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ، ﺟﺲ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺗﺸﻮﯾﺸﻨﺎﮎ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﮨﯽ ﻭﮦ ﮨﻼﮎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔

اس بے رحمانہ قتل پہ ساری سندھ میں احتجاج ہونے لگے اور ہر زبان پہ صدا تھی کہ اب کہ نہ ثبوت کی ضرورت ہے نہ گواہوں کی، ویڈیو ساری کہانی بتا رہی ہے، تو قاتل کو جلد از جلد قانون کے کٹھرے میں لایا جائے۔ اتوار کے دن، گیارہ فروری کو سندھ کی سیاسی سماجی اور قوم پرستوں نے مل کر کراچی کی شاہراہ فیصل پہ مسلسل آٹھ گھنٹوں تک کارساز پل پہ دھرنا دیا۔ ہزاروں کا مجمع بس انصاف کی مانگ کر رہا تھا۔ زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوئے، اور بس یہی کہہ رہے تھے کہ : ”ارشاد اگر ڈکیت بھی تھا، تو گرفتار کرتے، اس پہ کیس چلاتے، پر قانون ہاتھ میں لے کر ایک یو سی چئیرمین کو کس نے اتنے اختیارات سونپے کہ، وہ ایک راہ چلتے انسان کو مار ڈالے؟ “

یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے، پر اس قسم کے واقعات پہلے بھے رونما ہوچکے ہیں، جس میں پولیس نے مجرمانہ طور پہ اپنے ہتھیاروں کو استعمال کیا ہے۔ کچھ روز قبل ساہیوال واقعہ بھی ایک بڑی مثال ہے، جس میں پولیس نے شک کی بنیاد پہ کارروائی کر کے ایک کار میں بیٹھے شہریوں کو مار ڈالا، جن کی بچیاں سسک سسک کہ رو رہی تھیں۔ ایک سال قبل کراچی میں ہی ڈرامائی انداز میں پولیس نے انکاؤنٹر کر کے نقیب اللہ محسود کو مار ڈالا۔

اور اسے مارنے ولا ایس پی راؤ انوار ابھی تک قانون کی پکڑ میں نہیں آیا۔ کیا ایک پولیس والا یا یو سی چئیرمین اتنا طاقتور ہے کہ اس کے سامنے پولیس اہلکار بے بس اور تماشائی بنے رہیں۔ رحیم شاہ کو سزا تو بیشک ملنی چاھئیے، پر کیا یہ سسٹم ایسے ہی چلتا رہے گا؟ جہاں وڈیرے، ایم پی ای، ایم این ای، کس بڑے آفسر، کسی منسٹر کے سامنے پولیس گونگے بہرے ہونے کا دکھاوا کرتی رہی گی۔ کیا یہ پولیس اہلکار قاتل نہ کہلائے جائے گے، جن کے سامنے چھ فائر ہوئے، جن کے سامنے مقتول ارشاد تڑپتا رہا، پر وہ ایک سفاک قاتل رحیم شاہ کے سامنے ایسے چپ رہے، جیسے کوئی سانپ سونگھ گیا ہو۔

ارشاد کا بھائی منور رانجھانی بھی یہی تحفظات ظاہر کرتے ہوئے نظر آیا، کہ جو پولیس میرے بھائی کو ہسپتال نہ لے گئی، وہ کس طرح سے قاتل کے دباؤ سے کیس چلائی گی۔ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﺭﺍﻧﺠﮭﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﮨﻼﮐﺖ ﮐﯽ ﺗﺤﻘﯿﻘﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﭨﯿﻢ ﻧﮯ ’ﯾﮑﻄﺮﻓﮧ‘ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﭘﺮ ﻣﻠﺰﻡ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﯿﻢ ﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺳﺮﭘﺮﺳﺘﯽ ﮐﺎ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﻋﺎﺋﺪ ﮐﯿﺎ۔ اس کا مطالبہ تھا کہ عدالتی کمیشن بنائی جائے۔ کیونکہ جو پولیس ایک رات میں قاتل رحیم شاہ کو گرفتاری کے کچھ گھنٹون بعد رہا کر سکتی ہے، وہ اس شیشے جیسے صاف و شفاف کیس کو دوسرا رخ دے کر عدالت کو گمراہ بھی کر سکتی ہے۔

نہ صرف منور پر ہم سب، ہر شعور رکھنے والا انسان، ہر وہ جسے انسانیت سے پیار ہے، مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کیس کو جلد از جلد منطقی انجام تک لایا جائے۔ یہ کیس کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے، کیونکہ ساری پاکستان نے ویڈیو دیکھی ہے، اور اس کے بعد کوئی گنجائش نہیں رہہ جاتی کہ قاتل اپنا دفاع کرے۔ قاتل کے ہمراہ پولیس کے ان اہلکاروں پہ بھی سخت کارروائی کی جائے، جنہوں نے زخموں سے چور اور خون میں لت پت ارشاد پہ جانبدارانہ رویہ رکھ کے اپنی ذمہ داری سے منہ موڑا ہے۔

اگر اس دفعہ بنا کسی سیاسی دباؤ کے کارروائی کر کے مقتول ارشاد کے والدین کو انصاف دیا جائے گا، تو ہو سکتا ہے عوام کا کچھ اعتماد بحال ہو، ورنہ جس ریاست کو وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ پولیس اسٹیٹ کہتے نہیں ہچکچاتا، اس پر سے عوام کا اعتبار اٹھ جائے گا۔ پھر ہر عام آدمی پولیس والوں کو کسی طاقت ور آدمی کا گارڈ سمجھے گا، جو کہ اپنے مالک کا ہر برے بھلے کام میں، دفاع کرتا ہے، اور اسے بچانے میں مصروف رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).