بالاکوٹ کی اصرا خان کی گڑیا


مڑا دل بالا کوٹ بِج اے
مڑے بچے بالا کوٹ ہُن
مڑے کرا والا بالا کوٹ اے
مڑا شہر بالا کوٹ اے
ماڑا گھار بالا کوٹ اے

مجھے بالا کوٹ جانے دو۔ مجھے بالا کوٹ جانا ہے مجھے بالا کوٹ چلنا ہے۔ مجھے بالا کوٹ لے جاؤ۔ میرا دل وہاں ہے میرا دل وہاں ہے۔ میرا سب کچھ اُدھر ہے۔

اس نے میرا ہاتھ پکڑلیا۔ اس کے اُجڑے ہوئے خوبصورت چہرے پر آنسوؤں کی لکیریں بہہ رہی تھیں۔ اُس کی سبز سحرزدہ آنکھوں میں ویرانی دور تک پھیلی ہوئی تھی۔وہ زمین پر ایک اسٹریچر پر پڑی ہوئی تھی جسے صبح ہی بالاکوٹ سے لایا گیا تھا۔

مانسہرہ کا کیمپ ہسپتال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ ہر طرف عورتیں بچے جوان بوڑھے پڑے ہوئے تھے۔ کسی کاہاتھ ٹوٹا ہوا، کسی کے پیر ٹوٹے ہوئے تھے، کسی کے سر پر زخم تھا کسی کے بدن کے ہر حصے پر زخم تھا۔ آہ و بکا ایسی تھی جیسے قیامت کا سماں ہو۔ الامان والحفیظ

ایدھی کی ایمبولینس کے رضاکاروں نے اسٹریچر کو اُتار کر زمین پر رکھ دیا اور فوراً ہی دوسرے مریضوں کو لینے کے لیے بالاکوٹ روانہ ہوگئے تھے۔ خبریں آرہی تھیں کہ بالا کوٹ تباہ ہوگیا ہے۔ پورا شہر زمین کے اندر دھنس گیا ہے، بڑے بڑے ہوٹل، چھوٹے بڑے گھر، انسان، مویشی سب چندلمحوں میں زلزلے کی نذر ہوگئے تھے۔ پہاڑوں سے پتھر، ٹیلے اور چٹانیں لڑھک لڑھک کر گرے تھے اور سڑکوں، راستوں، پگڈنڈیوں کو بند کردیا تھا۔

شروع کے چند گھنٹے تو راستے کو صاف کرنے میں لگ گئے۔ فوجیوں نے راستہ بحال کیا تو ایدھی کی ایمبولینسوں کو موقع ملا کہ شہر میں داخل ہوں اور زخمیوں کو ایسی جگہوں پر پہنچائیں جہاں پر کچھ علاج ہوسکے اور ابتدائی امداد مل سکے۔

میں اسٹریچر کے ساتھ ہی بیٹھ گیا تاکہ اس کو کچھ تسلی دے سکوں۔ وہ مسلسل بین کررہی تھی۔ مجھے فوراً ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ کمر کے نیچے سے فالج زدہ ہے۔ گھر جب گرا تو پورا ایک پلر اس کے کمر پر گر گیا تھا اور شاید کمر ٹوٹ گئی تھی۔ نیچے کے کمرے میں اس کے تینوں بچے تھے اور شوہر بھی تھا۔ گھر کے دوسرے حصوں میں اس کا دیور، نند، ساس اور سسر موجود تھے۔ نہ جانے کب تک وہ ملبے کے نیچے دبی رہی۔ جب نکالا گیا تو پتہ چلا کہ اس کا سارا گھر تباہ ہوچکا تھا۔ وہ کسی کام سے مکان کے ورانڈے سے باہر نکلی ہی تھی کہ زلزلہ آگیا۔ گھر ابھی تک زمین کے اندر تھا اور گھر کے سارے لوگ مرچکے تھے۔ شوہر، تینوں بچے، ساس، سسر، نند اور دیور۔

نکالنے والوں نے اس کی بات سمجھی ہی نہیں، وہ بین کرتی رہی، منت کرتی رہی کہ اسے بالا کوٹ سے نہ نکالا جائے، اسے وہیں چھوڑدیا جائے اسی مکان کے سامنے، اسی صحن کے پاس جہاں اس کے بچے، دل کے ٹکڑے، اس کا غلام مصطفی تھا۔ وہ وہاں پر ہی رہنا چاہتی تھی، اس گھر کے سامنے مرنا چاہتی تھی۔

مگر کسی نے اس کی نہیں سنی اور اب وہ اس کیمپ ہسپتال میں لائی گئی تھی۔ میں اس کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا رہا، دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ اوپر والے کے گورکھ دھندے کو کیسے سمجھوں، کیا سمجھوں۔ اسے کیوں زندہ رکھا، اس کی زندگی کیا ہے، ایک مستقل پریشانی، ایک عذاب مسلسل۔ اب کیا ہوگا اس کے ساتھ۔ نہ یہ اُٹھ سکتی ہے نہ بیٹھ سکتی ہے۔ اسے اپنے پیشاب پاخانے پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ نہ جانے کب تک اسی طرح پڑی رہے گی۔ اپنے زخموں کے ساتھ گندگی کے ڈھیر پر اپنے زندہ سوچتے ہوئے دماغ کا عذاب لیے جو مسلسل سوال کرتا رہے گا۔ وہ بین کرتی رہے گی، بلکتی رہے گی۔

میں سوچتا رہا اور پریشان ہوتا رہا، اصرا خاں بی بی روتی رہی اور بین کرتی رہی کہ اسے واپس بالا کوٹ بھیج دیا جائے۔

یہی فیصلہ ہوا تھا کہ اسے فوراً ہی ایبٹ آباد کے میڈیکل کمپلیکس بھیج دیا جائے وہاں شاید کوئی نیورو سرجن اس کو دیکھ کر اس کا آپریشن کرسکے۔ اس کی ٹوٹی ہوئی ریڑھ کی ہڈی کو کھول کر دیکھ سکے۔ ہڈیوں کے ٹوٹے ہوئے چھوٹے ٹکڑوں کو نکال سکے پھر اسپائنل کورڈ کے اوپر پڑنے والے دباؤ کو ریلیز کرسکے شاید اس کے بعد وہ اپنے پیروں کی انگلیوں کو محسوس کرسکے، اُٹھ سکے، اسے ٹھنڈا اور گرم کا احساس ہو، بیٹھ سکے، چل سکے، ہل سکے۔

یہ ساری امیدیں شاید حقیقت کے خلاف تھیں۔ مجھے پتہ تھا کہ اس ٹوٹی کمر کے ساتھ اسے بڑی بے احتیاطی سے اٹھایا گیا ہے، بے احتیاطی کے ساتھ ہی ایبٹ آباد پہنچایا جائے گا، بے احتیاطی سے ہی اُتارا جائے گا، نہ اس کا سی ٹی اسکین ہوسکے گا نہ ہی ایم آر آئی کرانے کے لیے اس کی باری آسکے گی۔ نہ جانے یہ کب تک ہسپتال کے باہر خیموں میں پڑی رہے گی۔ ہم لوگوں نے تو کیتیھٹر پاس کردیا تھا تاکہ پیشاب بستر کے بجائے تھیلی میں جمع ہوتا رہے۔

پر نہ جانے کون پیشاب کی تھیلی خالی کرے گا، کون اس کی صفائی کرے گا کون اسے ہونے والے انفیکشن سے بچائے گا۔ کوئی نہیں۔ اسے پہلے انفیکشن ہوگا پھر سیپٹی سیمیا ہوجائے گا۔ گندے بستر پر وہ اپنے ہی پاخانے میں سڑتی رہے گی، نہ کوئی صفائی کرنے والا ہوگا اور نہ ہی دوائیں دینے والا۔ انفیکشن بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ پھر شاید اسے کچھ دوا ئیں بھی مل جائیں گی لیکن ایک دن یہ یکایک مرجائے گی۔ کیمپ کا کوئی ڈاکٹر موت کا سرٹیفکیٹ بنادے گا۔ موت کی وجہ دل اور تنفس کے نظام کی ناکامی، انفیکشن کی وجہ سے۔ میں نے ایک بار پھر سوچا کہ شاید یہ مرجاتی تو اچھا ہوتا۔ کیوں زندہ رکھا ہے اسے اوپر والے نے، کیا حکمت تھی اس کی کیا مصلحت تھی۔ میرا ذہن قاصر تھا جواب دینے سے۔ اوپر والے کے بھید اوپر والا ہی جانے۔

اسے تھوڑی دیر بعد شفٹ کردیا گیا تھا۔

دو دن کے بعد مجھے ایبٹ آباد جانا پڑگیا۔ لندن سے کچھ لوگ آئے تھے جن کے پاس کچھ ڈریسنگ کا سامان اور کچھ دوائیں تھیں۔ وہ ایبٹ آباد کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں نے ان سے وہ سامان لیا اور ایمبولینس پر سامان لدوانے کے بعد میں ایبٹ آباد کے ہسپتال چلا گیا تھا۔ ہسپتال کے باہر کارپارکنگ کی جگہ پر کثیرتعداد میں خیمے لگے ہوئے تھے۔ میں بیمار عورتوں کے لیے بنے ہوئے خیموں میں اصرا خاں بی بی کو تلاش کرتا ہوا آخر اس جگہ پہنچ گیا جہاں مجھے وہ لیٹی ہوئی ملی تھی۔

اس کا بستر صاف تھا کسی نے اس کے چہرے کو دھویا تھا اوربالوں کو کنگھی کرکے اس کی چوٹی باندھ دی تھی۔ اس کے کپڑے بھی صاف تھے لیکن چہرے پر ایسی بھیانک اداسی تھی کہ میں کانپ کر رہ گیا۔ اس نے اُداس سی مسکراہٹ سے میرا استقبال کیا اس کی آنکھوں میں شناسائی کی جھلک تھی۔

میں اس کے پاس بیٹھ گیا تھا۔ اس کے پڑوس میں ایک اور عورت اسپائنل انجری کے ساتھ تھی جس کی بیٹی حسنہ اپنی ماں کے ساتھ اصراخاں بی بی کا بھی خیال کررہی تھی۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ ڈاکٹروں نے دیکھا ہے فیصلہ کیا ہے کہ آپریشن کریں گے مگر اصرا خاں بی بی کے پیٹھ پر زخم بن گئے ہیں۔ اب کوشش یہ ہے کہ یہ زخم صحیح ہوجائے تو آپریشن ہوگا۔

مجھے پتہ تھا کہ بیڈسورز کی خبر کوئی اچھی خبر نہیں ہے خاص کرہمارے ملکوں میں جہاں نرسیں ہیں ہی نہیں اور اگرہیں بھی تو کافی نہیں ہیں، یا ان کی نرسنگ اتنی خراب ہے کہ وہ مریضوں کے کسی کام کی نہیں ہیں۔ ہم لوگوں نے ایٹم بم تو بنالیا تھا مگر تربیت یافتہ نرسیں نہیں بناسکے تھے، ایسی نرسیں جو مریضوں کو سمجھ سکیں، ان کی دیکھ بھال کرسکیں، اس کے لیے اچھے نرسنگ اسکولوں کی ضرورت ہوتی ہے جہاں انہیں پڑھایا جاتا ہے، تربیت دی جاتی ہے پھر اچھی تنخواہیں دے کر ہسپتالوں میں عزت سے کام کرنے کے مواقع پیدا کیے جاتے ہیں، ایسی نرسیں قدرتی آفات میں خدا کی رحمت کی طرح ہوتی ہیں۔

اِس زلزلہ زدگان کے کیمپ میں ایسی نرسیں کہاں تھیں، ڈاکٹر ضرور تھے۔ غیر تربیت یافتہ جنہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ زخمیوں کو کیسے دیکھنا ہے، سمجھنا ہے، ان کے مسائل کیا ہیں، ان کے جذبات کیا ہیں، وہ روتے ہیں تو کیوں روتے ہیں اور ان کی ہنسی کتنی بھیانک ہے۔ یہ بے چارے غیرتربیت یافتہ ڈاکٹر اپنے ہی ضمیر کی پکار پر سرکار کا ہاتھ بٹانے آگئے تھے۔ انہیں کیا پتہ کہ اس قسم کی آفات میں کیا کرنا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2