انصاف تمام فلاحی اقدامات پر فوقیت رکھتا ہے



انصاف باقی تمام اصلاحی اقدامات پر فوقیت رکھتا ہے
”فاطمہؓ اس کائنات کی تمام خواتین کی سردار ہے۔ “
”فاطمہؓ تمام جنتی عورتوں کی بھی سردار ہے۔ “
”فاطمہ ؓ میرے جسم کا ٹکڑا ہے۔ “
”جس نے فاطمہؓ کو تکلیف دی، اُس نے مجھے تکلیف دی۔ “

باپ بیٹیوں سے محبت کِیا ہی کرتے ہیں۔ ان کی دلجوئی اور تشفّی کے لیے بڑے سے بڑا کلمہ کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن مذکورہ بالا کلمات کسی عام باپ کے نہیں بلکہ اُس نبی ٔ برحقؐ کے ہیں، جس کے سر پر ختمِ نبوت کا تاج ہے اور جو تمام انبیاء ورسل کا تاجدار ہے۔ چونکہ یہ باپ کوئی عام باپ نہیں، اس لئے ان فرمودات کو صرف ایک باپ کی اپنی بیٹی کے لیے محبت و شفقت کا اظہار قرار دینا بھی کسی صورت درست نہیں۔ نہ یہ بیٹی عام ہے، نہ یہ باپ عام کہ ان کی باتوں کو عام انداز میں دیکھا اور سمجھا جائے۔

یہ باپ بیٹی دونوں خاص بھی نہیں، خاص الخاص ہیں۔ یہ بیٹی اس کائنات کی سیدہ و ساجدہ اور طیّبہ و طاہرہ بیٹی ہے، جس سے کسی معمولی سی بُرائی کا صدور بھی ممکن نہیں۔ اس بیٹی کی عفت و عصمت پر تمام کائنات کی آبروئیں قربان ہیں۔ اس کی ردائے تطہیر پر دُنیا جہان کی چہاردیواریاں نثار ہیں۔ اب ذرا ایک قدم آگے بڑھائیے اور غور کیجئے کہ اتنی عظیم بیٹی کا اتنا عظیم باپ جب ایک ریاست کے سربراہ کے طور پرانصاف کی کامل فراہمی کے لیے اپنے مقدس لبوں کو جنبش دیتا ہے تَو اسی بیٹی کی تطہیر و سیادت کو ایک لمحے کے لیے پسِ پُشت ڈال کر نبوی جلال کے اُلُوہی لہجے میں فرماتا ہے کہ اگر محمدؐ کی یہ باعظمت و عفت بیٹی فاطمہؓ بھی جرم کرے تَو اپنے مقام و مرتبے کے باجود سزا سے بچ نہ پائے گی۔

فاطمہؓ کا باپ کسی عام ریاست کا سربراہ نہیں بلکہ ریاستِ مدینہ کا حاکم ہے۔ وہی ریاستِ مدینہ جس کی مثالیں ہمارے آج کے حکمران بارہا دے چکے ہیں۔ کیا مدینے کی اُس شاندار ریاست کا ذکر محض زیبِ داستان کے لیے ہے؟ کوئی سبق سیکھنے کے لیے نہیں؟ زبان سے ریاستِ مدینہ کی مثالیں پیش کرنا اور خلافتِ عمرؓ سے رہنمائی لینے کی باتیں کر نا آسان ہے۔ اُس لا زوال عہد کی ایک جھلک پیش کر نابھی محال ہے۔ عمرؓ کا دِ ل خدا کی حمد پر فریفتہ تھا۔

آپؓ ہر سانس کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتے لیکن آج عمرؓ کی وجۂ شہرت اُس کی تسبیحات نہیں، اُس کا عدل ہے، اُس کا انصاف ہے، اُس کی مساوات ہے۔ اُس کی شاندار قائدانہ صلاحیتیں اُسے آج تک زندہ رکھے ہو ئے ہیں۔ ریاستِ مدینہ کا بار بار ذکر کر نے والوں کو کون سمجھا ئے کہ اُس ریا ست کے خدوخال کیا تھے! ! وہ ریاست نہ معیشت پر قائم تھی، نہ سیاست پر بلکہ اُس ریاست کی سیادت کا راز انصاف کی مکمل اور فوری فراہمی میں پنہاں تھا۔

اُس ریاست کا مکمل ڈھانچہ عدل کے ستونوں پر کھڑا تھا۔ انصاف کے معاملے میں وہاں نہ فاطمہؓ محمدؐ کی بیٹی تھی اور نہ عبداللہؓ عمرؓ کا بیٹا۔ عدل وانصاف کی اس برتری نے اُس ریاست کو اپنے عہد کی تمام ریاستوں پر فوقیت بخشی ہوئی تھی۔ قتلِ نا حق تَو بہت دُور کی بات ہے، وہاں تَو صرف لمبا کُرتا پہننے پر ہی ریاست کا سربراہ عوام کے سامنے جوابدہ تھا۔ اس بلند معیار تک رسائی آج کہاں ممکن ہے!

خدارا، اُس عظیم ریاست کا جھوٹا خواب نہ دکھائیے۔ کچھ کرنا ہے تَوانصاف میں جلدی کیجئے۔ مظلوم کی بیچارگی اور درماندگی کو نہ اُچھالئے بلکہ ظالم کی درندگی اور سفّاکی کا کچھ کیجئے۔ مظلوم کی بے بسی کو مالی پیمانے سے مت نا پئے بلکہ حقیقی مجرم کو کٹہرے میں لانے کی خوبصورت روایت ڈال کر مظلوم کے بازو مضبوط کیجئے۔ معصوموں کی موت کے آگے شاطرانہ مصلحتوں کی دھما چوکڑی نہ مچائیے بلکہ انصاف کے تقاضے پورے کر کے مظلوم کی حقیقی مدد کیجئے۔

آج وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ مثال قائم کر دیجئے۔ آئندہ کے لیے راہیں متعیّن کر دیجئے۔ ریاستی مؤقف کے تناظر میں دیکھا جائے تَو سانحہ ساہیوال کی معصوم ”اریبہ“ اس دھرتی کو ممکنہ دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنا خون دے گئی ہے۔ شہید کے اس خون کی قدر کیجئے۔ وہ خود چلی گئی ہے لیکن اپنے خون سے آپ کے لیے چراغ روشن کر گئی ہے۔ اس روشن راہ پر چلئے اور انصاف کی مکمل اور جلد فراہمی کے لیے انتہائی حدوں کوچھو جائیے۔ پولیس اصلاحات کے نام پر قوم کو کسی نئے ٹرک کی بتّی کے پیچھے نہ لگائیے بلکہ انصاف کی کامل و اکمل فراہمی کو تمام اصلاحی اقدامات پر ترجیح دیجئے۔

ذرا غور تَو کیجئے کہ معاف کرنے والا اور معاف کرنے والوں کو پسند کر نے والا خالقِ ارض و سماء قتلِ ناحق کی معافی کیوں پسند نہیں کرتا؟ اس معاملے میں خالقِ ہردوجہاں معافی کو کیوں ترجیح نہیں دیتا؟ بندوں کے عیبوں پر پردے ڈالنے والا ستار العیّوب اور ان کے گناہوں کو بخشنے والا غفّار الذنوب اپنے آخری پیغام قرآن حکیم میں اِس جُرم کو معاف نہ کرنے کی تلقین کیوں کرتا ہے؟ کیا وہ اپنے پیدا کردہ انسانوں کو انسانوں ہی کے ہاتھوں مروانا چا ہتا ہے؟

نہیں، نہیں، وہ تَو صرف اتنا چاہتاہے کہ کسی ”اریبہ“ کا سینہ چھ چھ گولیوں سے چھلنی نہ ہوسکے۔ وہ تَو صرف اتنا چاہتا ہے کہ کسی ماں کا وجود چارچار گولیوں سے چھیدا نہ جا سکے۔ وہ تَو صرف اتنا چاہتا ہے کہ کسی گھرانے سے اُس کے باپ کی شفقت نہ چھینی جا سکے۔ وہ تَو صرف اتنا چا ہتا ہے کہ بچوں سے اُن کی جنت نہ ہتھیائی جا سکے۔ وہ تَو صرف اتنا چاہتا ہے کہ بھائی سے بہنیں اور بہنوں سے بھائی جدا نہ کیے جا سکیں۔ وہ صرف اتنا چاہتا ہے کہ تحقیقات مارنے سے پہلے کی جائیں۔ اسی لئے وہ حکم دیتاہے کہ قتلِ ناحق پر کوئی مصلحت نہ برتی جا ئے بلکہ ”قصاص“ لیا جائے، کہ اِسی میں قوم کی حیات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).