یونیورسٹییاں یا فحش کدے؟


سیانے کہتے ہیں کہ طلبہ کسی بھی قوم کی تہذیب کے عکاس ہوتے ہیں۔ اور یونیورسٹی کے طلبہ کسی ملک کے طلبہ کے اخلاق و کردار کی مجموعی طور پر عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انہی طلبہ کے ہاتھوں تہذیب مسخ ہو رہی ہے۔ خاکسار یونیورسٹی کا طالبِ علم ہے اور یونیورسٹی آ کر خاکسار کو جو پہلا حیرت انگیز انکشاف ہوا وہ یہ ہے کہ بارہ سالہ اعلیٰ ثانوی تعلیم میں خاکسار کو دینیات اور اخلاقیات کے نام پر جو کچھ پڑھایا اور سیکھایا گیا، یونیورسٹی کا نظام تدریس اس کے بالکل متضاد ہے۔

خاکسار چند چشم دیدہ حقائق کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانے کے لئے چیدہ چیدہ مسائل تحریر کر رہا ہے۔

یونیورسٹی کے طلبہ میں دین سے بیزاری کا عنصر روز بروز سرطان کی طرح زور پکڑتا جا رہا ہے۔ لٹریچر بذاتِ خود برا نہیں ہوتا خواہ انگریزی ہو یا اسلامی لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ لیٹریچر پڑھتے وقت انسان تنہائی میں لادین اور غیر متعصب ہوا بیٹھا ہوتا ہے۔ اور نتیجتاً لیٹریچر میں تحریر ایک ایک نکتہ اس کے دماغ پر گہری چھاپ نقش کر دیتا ہے۔ کوئی بھی مذہب یا تہذیب بری نہیں ہے لیکن ہر ایک مذہب اور تہذیب کے اپنے اپنے خصائص ہیں۔

لہٰذا جب دو تہذیبوں اور مذاہب کا تصادم ہوتا ہے تو دونوں اپنے خصائص کھو دیتے ہیں اور ایک کھچڑی بن جاتی ہے۔ کھچڑی مریضوں کے لئے تو مقوی ہو سکتی ہے، صحت مند افراد کے لئے نہیں۔ اسی طرح تہذیبوں اور مذاہب کے تصادم سے وجود میں آنے والی کھچڑی بھی بد ذائقہ ہوتی ہے اور طلبہ اس سے بیزار ہو جاتے ہیں اور اس کھچڑی کے اجزا سے بھی جن میں کچھ خالص اشیا بھی ہوتی ہے۔ یونیورسٹی میں کچھ ایسی زیادتی مذہب سے ہو رہی ہے۔

یونیورسٹی کے اکثر طلبہ کے دل تو مسلمان لیکن دماغ مغرب زدہ ہو جاتے ہیں۔ عام فہم بات ہے ایک اوسط مطالعہ کرنے والا طالب علم جو کہ اعلیٰ ثانوی امتحانات پاس کرنے کے بعد یونیورسٹی میں آتا ہے اس کا دینی مطالعہ اول تو آٹے میں نمک کے برابر ہوتا ہے اور اکثریت کی دینی معلومات تک رسائی بھی شنیدہ ہی ہوتی ہے۔ جب ایسے کچے ذہنوں کو مغربی اور لا دینی نظریات کی ظاہری آب و تاب نظر آئے گی تو وہ نظریاتی الجھن کا تو شکار ہوں گے۔ اور قوی امکانات ہیں کہ وہ دین سے بیزار ہو کر لا دین ہو جائیں گے۔

دوسرا المیہ بے راہ روی اور فحاشی کا ہے۔ آزاد خیالی بہت اچھی چیز ہے لیکن جب آزاد خیالی ایک حد سے بڑھ جائے تو انسان بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ خاکسار کا تو یہ ماننا ہے کہ اپنے نفس کو قابو کرنے کے لئے صرف ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔ جتنے بھی علوم و فنون اور فلسفے ہیں وہ آپ کو شش و پنج ہی میں ڈالتے ہیں۔ نفس پہ قابو پانے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کرتے۔ آپ جتنے فلسفے پڑھتے چلے جائیں گے، اتنی فلسفی موشگافیوں میں الجھتے چلے جائیں گے، مگر یقین مانیے کسی حتمی نتیجہ پہ نہ پہنچ پائیں گے۔

یونیورسٹی کے طلبہ فلسفہ کا مطالعہ حقائق کی کھوج کے لئے نہیں بلکہ فحش اور من مانی سرگرمیوں کے لئے جواز ڈھونڈنے کو پڑھتے ہیں۔ کچھ مغرب زدہ حضرات نے تو اسلام کا بھی skeptical مطالعہ اس لیے کر رکھا ہے کہ اسلام میں مغالطے ڈھونڈ سکیں۔ جنسی بے راہ روی کے واقعات کی بڑھتی شرح کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات میں جنسی جذبات تو خیر عمر کا تقاضا ہے لیکن اگر ساتھ ماحول بھی ایسا میسر ہو جہاں جنسی تمکنت کو ابھارنے کے لیے مخلوط ناچ کی مجالس کا سرکاری سطح پر انعقاد کیا جاتا ہو تو کیا پھر وہاں جنسی بے راہ روی کے واقعات وقوع پذیر نہ ہوں گے؟

تیسرا المیہ ملکی سالمیت کے خلاف لیٹریچر کا پرچار ہے۔ علاقائیت، صوبائیت، لسانیت اور فرقہ واریت سے لت پت لیٹریچر طلبہ کے ذہنوں میں وہ زہر گھول دیتا ہے جو ان کے دل و دماغ میں حب الوطنی کے مقدس جذبے کو قتل کر ڈالتا ہے اور نتیجتاً صوبائیت پرستی کو فروغ دیتا ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے چشم دید گواہ اپنی کتاب ”میں نتے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ میں سقوطِ ڈھاکہ کی مرکزی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ بنگالی تعلیمی اداروں میں ”دیش و کرشتی“ کی جگہ قمرالدین کی کتاب ”سوشل ہسٹری“ کو متعارف کرانا ہے۔ اول الذکر کتاب اسلامی اخوت اور اسلامی رشتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے جبکہ موخرالذکر صوبائیت پرستی کو پروان چڑھاتی ہے۔ تمام یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور بالخصوص اعلیٰ حکام سے خاکسار ملتمس ہے کہ درس گاہ تربیت کی جاہ ہوتی ہے اسے خدارہ فحش کدہ مت بننے دیں ورنہ پورا معاشرہ مغرب کی زد میں آ جائے گا۔

سورج ہمیں ہر شام یہ درس دیتا ہے

مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).