ویلنٹائن ڈے کے لڈو


آج ویلنٹائین ڈے تھا۔ محبت کرنے والوں کا دن، محبت میں امر ہو جانے والوں کا دن۔ اس کی تاریخ جو بھی رہی ہو، جب سے ہوش سنبھالا ہے اس کا ذکر سنتے آئے ہیں۔ کبھی تو یہ ذکر ”خیر“ کے زمرے میں ہوتا ہے اور کبھی وہ ”شر“ کہ الاماں۔ فروری کے آغاز سے ہی سوشل میڈیا پہ اس جنگ کا آغاز شروع ہوا کہ اس سال یہ دن کس طرح منایا جائے؟

تجاویز تو بڑی نایاب اور بہترین پیش کی گئیں کہ اس دن کو ”حیا ڈے“ اور ”سسٹر ڈے“ کے نام سے منایا جائے گا۔ یہاں تک کہ ہماری گنہگار آنکھوں نے یہ بھی پڑھا کہ اس دن لڑکے اپنی اپنی بہنوں کو ”حجاب“ اور ”عبایا“ گفٹ کریں گے۔

اگر سچ کہیں تو ہمیں یہ تجاویز نہایت معقول معلوم ہوئیں۔ دل میں لڈو پھوٹنے لگے کے چلو اس برس ”پھول“ نا سہی کچھ ”حجاب اور عبایا“ ہی وصول ہو جائیں گے۔ شیخ چلی نے انڈوں کی ٹوکری سر پہ رکھ کر کیا ہی خواب بنے ہوں گے، جوہم نے خواب دیکھے تو اس کے سامنے وہ بیچارہ تو پانی بھرتا نظر آیا۔ نجانے کیا کیا سوچ لیاکہ اتنے عبایا اور حجاب ہم کہاں سنبھال پائیں گے؟ تو کیوں نا ایک ”حجاب سنٹر“ بنالیں؟ اپنا بزنس بھی شروع ہو جائے گا اور ”قومی مسئلہ“ بھی بخوبی حل ہو جائے گا۔ لیکن وائے نادانی کہ عین وقت پہ یہ ثابت ہوا، خواب تھا جو کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا۔

کچھ جگہوں پر تو باقاعدہ نوٹس جاری کیا گیا کہ 14 فروری کو کوئی ایکسٹرا کلاس نہیں ہو گی لہذا اپنے اپنے ”جوان“ بچوں اور بچیوں کا خود خیال رکھیں۔ نقصان کی صورت میں انتطامیہ ذمہ دار نہ ہو گی۔

ایک یونیورسٹی کے مین گیٹ پہ نوٹس لگا تھا کہ آج کے دن یونیورسٹی میں پھول لانا سخت منع ہے۔ اگر کوئی کسی قسم کے پھول کے ساتھ پایا گیا تو نتائج کا خود ذمہ دار ہو گا۔

ہم جیسوں کی تو خیر ہے، نیا پار لگے عرصہ بیت گیا، لیکن وہ جو امنگوں سے بھر پور ابھی تک ”کنوارے اور بیچارے“ ہیں، ان پہ کیا بیتی ہو گی؟ ایک ہی تو دن تھا جب محبت کو زبان ملنی تھی، چاہت کو عنواں ملنا تھا، وہ بھی ضائع چلا گیا۔ اب نجانے اگلے برس کیا حال ہو؟

نقاد کہتے ہیں کہ پھول دینا ہمارے کلچر میں نہیں۔ بجا فرمایا صاحب، ہمارے کلچر میں پھول دینے کی روایت کہاں؟ ہم تو پھول کچلنے کے عادی ہیں، ننھی کلیوں کو مسلنے کے عادی ہیں۔ ہمارے مذہب میں ”محبت“ ممنوع ہے۔ ہم تو آب کوثر سے دھلی خلقت ہیں جن کی ”حیا“ صرف ایک دن کے لئے جاگتی ہے، باقی دن جو جی میں آئے وہ ”اجازت“ ہے؟

ایک ہی دن تھا جب بطور روایت ہی سہی، سارا سال ایک دوجے سے لڑ جھگڑ کے گزارنے والے میاں بیوی ایک دوسرے کو پھول دے کر کچھ پل خوشی کے ”جی“ لیا کرتے تھے۔ ساری تلخیاں بھلا کرایک دوسرے سے اظہار محبت کر لیا کرتے تھے، آج اس پہ بھی قدغن لگی ہے۔ کیا ہے یہ سب؟ چھوڑئیے صاحب جانے دیجئے، دن جیسا بھی گزرا، گزر گیا، یہ نظم پڑھئے اور سر دھنئے۔

چلو کہ جشن بہار دیکھیں

چلو کہ پھولوں کہ ساتھ کھیلیں

چلو کہ شعروں کی کھیتی میں کوئی غزل اگائیں

چلو کہ خیام کی رباعی کا کوئی مصرعہ ہی گنگنائیں

کہ اس زمیں پہ بجز محبت

کوئی بھی جذبہ امر نہیں ہے

مگر کسی کو خبر نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).