ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان اور جمال خشوگی میں کیا دشمنی تھی؟


سعودی صحافی جمال خشوقجی کا سفاکانہ قتل تو سب کو یاد ہی ہو گا۔ جمال خشوقجی کے قتل سے متعلق میرے ایک کالم کا ذکر نیو یارک ٹائمز کی ایک سٹوری میں ہو چکا ہے جو کچھ آج اس کالم میں لکھا جا رہا ہے یہ تجزیہ ہے میری عرب سیاست اور محمد بن سلیمان کی پر کی گئی مسلسل تحقیق کا۔ کہا جاتا رہا جمال خشوقجی کے قتل کی وجہ ان کی سعودی پالیسیوں پر تنقید تھی۔ کچھ حد تک تو یہ بات درست سمجھ آتی ہے مگر اتنے خطرناک عمل کی وجہ صرف پالیسیوں پر تنقید ہو یہ بات بھی ہضم نہیں ہوتی۔ جمال خشوقجی نے ستمبر 2017 سے پہلے کبھی بھی اپنے مضمونوں میں سعودی پالیسیوں کی اس حد تک مخالفت نہیں کی کہ نتیجہ ان کے ایسے بھیانک قتل کی صورت میں نکلے۔

جمال خشوقجی کی طرف سے ہلکی پھلکی تنقید ضرور دیکھنے میں آئی مثلا موصوف یمن کے حالات پر کچھ نہ کچھ لکھتے رہے سعودی بمباری سے ہونے والی تباہ کاریوں کاذکر بھی کرتے رہے مگر انہوں نے کبھی بھی عوام کو بغاوت پرنہیں اکسایا نہ ہی کبھی خود کو بادشاہی نظام سے خائف ظاہر کیا۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں الوطن کی ایڈیٹر شپ سے جو دو بار ان کورخصت کیا گیا اس کی وجہ سعودی حکومت پر تنقید تھی تویہ بھی درست نہیں۔ الوطن کی ایڈیٹرشپ کے منصب سے دونوں بار دراصل ان کو ان کے وہابی مخالف نظریات کی وجہ سے کچھ وقت کے لیے الگ کیا گیا۔

پہلی بار ان کو سعودی وزارات اطلاعات کی سفارش پر منصب سے ہٹایا گیا ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک لکھاری کو اپنے مضمون میں مولانا تقی الدین ؒ  پر تنقید کرنے کی اجازت دی تھی۔ دوسری بار پھر ان کو ان کے منصب سے سعودی وزارات اطلاعات کی ہی سفارش پر ہٹایا گیا اور اس بار بھی الزام سعودی حکومت پر تنقید نہیں تھا بلکہ اس بار بھی ان کو ابراہیم العالمی کے مضمون جس میں انہوں سلفی نظریات پرکچھ تنقیدی الفاظ لکھے تھے کوبنیاد بنا کر ہٹایا گیا۔

اگر الوطن کی ایڈیٹرشپ سے ان کو سعودی حکومت پرتنقید کی وجہ سے نکالا جاتا تو وہ اس کے بعد کبھی بھی سعودی انٹیلیجنس چیف شہزادہ ترک الفیصل کے میڈیا ایڈوائزر کے طور پر نامزد نہ کیے جاتے۔ اپنے طالبعلمی کے زمانے میں جمال خشوقجی کئی دوسرے موجودہ سعودی وزیروں اور مشیروں کی طرح اخوان المسلیمین کے رکن رہے۔ اس کے باوجود ان کے سعودی عرب میں قیام کے دوران کبھی بھی ان کی تحاریر میں اس تنظیم کی حمایت میں کچھ لکھا نظر نہ آیا۔ مصر میں مرسی حکوت کا خاتمہ ہو یا اخوان المسلیمین کے اراکین کو پابند سلاسل کرنے کے اقدامات، جمال خشوقجی نے اپنے سعودی عرب میں قیام کے دوران کبھی بھی اس معاملے پر سخت الفاظ کا ستعمال نہیں کیا۔

جمال خشوقجی کی سعودی شاہی خاندان سے دوستی تو ایک عرصے تک زبان زدعام رہی۔ جمال خشوقجی سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ شہزادہ ترک بن فیصل بن عبدالعزیز کے قریبی دوست اورمشیر رہ چکے تھے۔ سعودی شاہی خاندان کا جمال خشوقجی پر اعتبار کا عالم یہ تھا کہ یہ جمال خشوقجی ہی تھے جو سعودی حکومت کے اسامہ بن لادن کے ساتھ سرد تعلقات معمول پر لانے کے لیے سعودی حکومت کی طرف سے پیغام رسانی کے انتہائی خفیہ امور بھی سرانجام دیتے رہے اور شاید یہی وہ دور تھا جس کے بارے خود اکثرجمال کہا کرتے تھے کہ انہوں نے سعودی انٹیلیجنس کے لیے بھی کام کیا۔

ان کے ناقد تو ان کو سی آئی اے کا ایجنٹ بھی کہتے ہیں۔ جمال کی دوستیاں صرف سعودی شاہی خاندان کے ساتھ ہی نہ تھی بلکہ بہت سے امریکی اعلیٰ عہدیدار بھی جمال کے قریبی دوست تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جمال ہی تھے جنہوں نے شہزادہ محمد بن سلیمان کی دوستی ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور امریکہ کے مشرق وسطیٰ پالیسی کے سربراہ جیراڈ کشنور سے کروائی۔ ولی عہد محمد بن سلیمان اور جمال کے درمیان بھی دوسرے شہزادوں کی طرح دوستی تھی۔ امریکی حکام کے ساتھ جمال کے قریبی تعلقات کی وجہ سے محمد بن سلیمان جمال سے بہت متاثر تھا۔ اور اس لالچ میں وہ جمال کو صرف اپنے قریب رکھنا چاہتا تھا۔ مگر اس میں آڑے آرہی تھی جمال اور شہزادہ ولید کی دوستی۔

جمال اور شہزادہ ولید کی دوستی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔ جمال نے جب العرب ٹیلی ویژن کا بحرین سے آغاز کیا تو سعودی پریشر کی وجہ سے بحرینی حکومت کویہ چینل ایک ہی دن میں بند کرنا پڑا۔ بعد میں جس وقت شہزادہ ولید گرفتار ہوئے تو تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کے اس چینل پر بھی پیسہ دراصل شہزادہ ولید کا تھا۔

محمد بن سلیمان کو جمال کی ولید کے ساتھ قربت پسند نہ تھی دوسری طرف جمال ولید کو ان کی فلسطین پالیسی کی وجہ سے پسند کرتے تھے۔

محمد بن سلیمان کے قریب سعودی شہزادوں اور مشیروں کے بجائے حسنیٰ مبارک کے دور کے مصری وزیروں کی موجودگی بھی جمال کو پسند نہ تھی۔ جمال نے ایک بار العربیہ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں ڈھکے چھپے الفاظ کا استعمال کرتے ہو اس پر لکھا بھی کہ ہمیں سعودی مشیروں کے بجائے سابقہ فیل شدہ مصری حکومت کے ناکام وزیروں سے کام نہیں لینا چاہیے۔ الجزیرہ پر ایک بار جمال نے شہزادہ محمد بن سلیمان کے اسرائیل سے قریبی تعلقات تل ابیب یاترا اور سعودی شہزادوں کی گرفتاریوں سے متعلق سوال کے جواب میں کہا ”یہ سچ ہے اور اس کے ذمہ دار سابقہ مصری حکومت کے وزیر داخلہ ہیں جو نوجوان ولی عہد کے ساتھ رہتے ہیں“۔

شہزادہ سلیمان اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں اس حد تک جا چکے تھے کہ وہ برملا فلسطینی صدر کو اسرائیلی فوقیت اور طاقت تسلیم کر کے اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر زور دے رہے تھے۔ اور یہ بات حالات سے اخذ کیا گیا کوئی ذہنی مفروضہ نہیں بلکہ ایسا موصوف خود بہت بار خود بیان کر چکے ہیں۔ محمد بن سلیمان کے اسی طرح کے اقدامات کی وجہ سے جمال ان سے دور رہنے لگے اور یہ بات ولی عہد کو پسند نہ تھی۔ دشمنی بڑھتی گئی۔

دوریاں بڑھتی چلی گئیں اور آخرکار ستمبر 2017 کا وہ وقت آن پہنچا جب جمال کو سعودی عرب سے کوچ کرنا پڑا۔ خودساختہ جلاوطنی کے دوران کوئی شک نہیں جمال نے محمد بن سلیمان کی پالیسیزکو تنقید کا نشانہ بنایا مگر وہ اکثر معاملات میں ان کی تعریف کرتے بھی پائے گئے اور پھر تنقید کبھی بھی اس شدت کی نہیں تھی کہ ان کو اس طرح دن دیہاڑے کسی دوسرے ملک میں قائم اپنے قونصل خانے میں قتل کر کے عالمی دنیا کی نظروں میں آنے کی ہمت کی جائے۔

میرے خیال میں ان کے قتل کی وجہ ان کی ولی عہد سے دوری تھی۔ شہزادہ محمد بن سلیمان حد درجہ مغرور، جذباتی اور اپنی بات منوانے والا شخص ہے۔ جو اپنے مخالفین پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ جمال نے جب سے امریکہ میں ڈیرے ڈالے تھے امریکی حکام ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی اہلیت پر سوال اٹھانے لگے تھے۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹس میں محمد بن سلیمان کو لاابالی اور جذباتی نوجوان کہا جانے لگا۔ امریکی جریدوں میں جیراڈ اور محمد بن سلیمان کی دوستی پر سوال ہونے گے۔

یمن اور سعودی عرب کے اندرونی حالات کی ذمہ داری محمد بن سلیمان پر ڈالی جانے لگی۔ مختصر یہ کہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں پہلے جیسی بات نہ رہی۔ یہاں ایک بات نوٹ کرنے کی ہے سعودی عرب پر حالیہ دنوں میں جتنی بھی تنقید ہوئی وہ سعودی عرب پربطور ریاست سے زیادہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان پر ہوئی۔ گذشتہ ماہ ولی عہد نے ایک عرب ٹی وی کو انٹرویو دیتے یہ بات بالآخر کہہ ہی دی کہ امریکہ اور سعودی عرب کل بھی دوست تھے، آنے والے وقتوں میں بھی دوست اور اتحادی رہیں گے۔ موجودہ صورتحال کے ذمہ دار کچھ ایسے لوگ ہیں جو میری ذات سے متعلق واشنگٹن کو مسلسل گمراہ کر رہے ہیں اور ہم ایسے لوگوں کی سرکوبی کریں گے۔

جمال صرف صحافی نہیں تھے وہ ایک انٹیلیجنس افسر اور سعودی عرب کے اعلیٰ خاندانوں میں سے ایک خاندان کے فرد تھے جن کا پوری دنیا کی اسٹبلشمنٹ کے اندر گہرا اثرورسوخ تھا۔ محمد بن سلیمان ان سے خوش نہیں تھا۔ جس طرح کے بھونڈے طریقے سے ان کو قتل کیا گیا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں سعودی عرب بطور ریاست شامل نہیں تھی بلکہ ایک فرد کا دوسرے فرد سے بدلہ لینے کی طمانیت اس گھناؤنے عمل میں صاف نظر آتی ہے۔ جس طرح ان کے جسم کے ٹکرے کیے گئے یہ سوائے بدلے کے اور کچھ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).