سعودی عرب اتنا امیر کیوں ہے؟


کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ سعودی عرب اتنا زیادہ امیر کیوں ہے؟ آپ کے ذہن میں پہلا جواب تو یہی آئے گا کہ ادھر تیل نکل آیا ہے اس لئے وہ اتنا امیر ہو گیا ہے۔ تیل تو ہم پاکستانیوں کا بھی بہت نکلا ہوا ہے، ہم تو اتنے امیر نہیں ہیں۔ بہرحال اس دلیل پر بات کریں کہ دنیا میں تیل کے سب سے زیادہ ذخائر سعودی عرب کے پاس نہیں بلکہ ایک ایسے ملک کے پاس ہیں جس کی کل آبادی کل تین کروڑ ہے لیکن اس کے عوام کھانے کو اس قدر ترس رہے ہیں کہ ایک شہری بھوک کے باعث ایک سال میں اوسطاً 11 کلو وزن کم کر رہا ہے۔

تیل تو وینیزوئلا، نائجیریا اور عراق کے پاس بھی بہت ہے۔ لیکن وہاں لوگ روٹی کو ترستے ہیں۔ اوپیک کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ثابت شدہ تیل وینیزوئلا کے پاس ہے۔ یہ تقریباً 3 کھرب بیرل ہے۔ جبکہ سعودی عرب دوسرے نمبر پر ہے وہاں ڈھائی کھرب بیرل تیل موجود ہے۔ عراق کے پاس ڈیڑھ کھرب بیرل ہیں۔ نائیجیریا آٹھویں نمبر پر ہے اور اس کے پاس 37 ارب بیرل ہیں۔

وینیزوئلا میں یہ حال ہے کہ ادھر افراط زر 13 لاکھ فیصد سالانہ ہے۔ ہر 19 دن بعد اشیائے ضرورت کی قیمت دگنی ہو جاتی ہے۔ لوگوں کے پاس کھانا اور پانی نہیں ہے۔ ادھر کم از کم ماہانہ اجرت صرف ساڑھے پانچ ڈالر یعنی ساڑھے سات سو روپے ہے۔ دارالحکومت کے ایک شہری نے الجزیرہ کو بتایا کہ پچھلے دو برس سے اس کے گھر میں پانی نہیں آتا اور وہ دو میل دو جا کر ایک ہسپتال سے پانی لاتا ہے جہاں پانچ سو افراد کے لئے ایک نلکا ہے۔ نوے فیصد شہری خط غربت سے نیچے ہیں۔ ان حالات سے تنگ آ کر پچھلے دو تین برس میں دس فیصد آبادی ترک وطن کر چکی ہے۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تیل سے کوئی ملک دولت مند نہیں ہوتا۔ دوسری دلیل دی جا سکتی ہے کہ حج عمرے کی کمائی سے سعودی عرب امیر ہو گیا ہے۔ حج عمرے سے کتنی کمائی ہو جاتی ہے؟ عمرہ حج کرنے سے سعودی معیشت میں ہر برس تقریباً 12 ارب ڈالر آتے ہیں۔ اس رقم کی بھلا کیا حیثیت ہے۔ اس سے تین چار گنا رقم تو ترکی اپنے سیاحوں سے کما لیتا ہے۔ چند ماہ پہلے سعودی عرب کے ہردلعزیز ولی عہد نے کرپشن کے خلاف مہم چلائی تو درجن بھر شہزادوں سے ہی 106 ارب ڈالر نکلوا لیے تھے جن کے سامنے یہ بارہ ارب ڈالر محض اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں۔

ہماری سوچی سمجھی رائے میں سعودی عرب کی امارت کا راز ہے اونٹ۔ اونٹ ایک ایسا حیرت انگیز جانور ہے جسے تین چار دن کھانے کی ضرورت ہے نہ پینے کی۔ نہ وہ کہیں آنے جانے کے لئے سڑک کا محتاج ہے۔ اس کے بالوں سے بہترین کپڑا بنتا ہے۔ تیل سے پہلے سعودی معیشت کا سارا انحصار ہی اونٹ پر تھا۔ چاہے اسے کھاؤ، اسے اوڑھو، اسے کرائے پر چلاؤ، اس کے ذریعے تجارت کرو، ہر طرح سے ہی مفید ہے۔ اوپر سے تقریباً صفر مینٹننس کوسٹ۔ ہم نے اپنے سفر حج کے دوران خاص طور پر نوٹ کیا تھا کہ سعودی عرب میں گھاس اور بوٹے نہیں اگتے بلکہ ہر طرف ریت اور کنکر پتھر بچھے ہوتے ہیں۔ نباتات میں صرف کھجور کے درخت ہوتے ہیں جو اتنے بلند ہوتے ہیں کہ اونٹ ان کے پتے نہیں کھا سکتا۔ تو زیادہ چانس یہی ہے کہ اونٹ صرف ریت کھا کر زندہ رہتا ہے۔

اگر حکومتِ پاکستان سعودی عرب سے راہنمائی حاصل کرے تو ہر خاندان کو پانچ مرغیاں، ایک کٹا اور چالیس لیٹر دودھ دینے والی گائے کے علاوہ ایک ایک اونٹ بھی فراہم کر دے۔ اس کے بعد ہمیں نہ تیل امپورٹ کرنے کی ضرورت پڑے گی، اور نہ ہی مہنگی گاڑیاں خریدنی پڑیں گی۔ گھر بیٹھے سب مرغیوں کے انڈے دینے کا انتظار کیا کریں گے۔ اسی اثنا میں گائے کا دودھ دوہ لیں گے۔ کسی کے پاس اونٹنی ہو تو وہ اس کا دودھ بھی دوہ سکتا ہے۔ جتنا اونٹنی کا سائز ہوتا ہے تو گمان ہے کہ وہ چالیس لیٹر سے زیادہ دودھ ہی دیتی ہو گی۔ پھر اس سامان تجارت کو اونٹ پر لاد کر دفتر کا رخ کریں گے اور ادھر جا کر انڈے اور دودھ بیچیں گے۔ نہ ٹرانسپورٹ کا خرچہ نہ کوئی دوسری فکر۔

بچت چیک کریں۔ پاکستان کا سب سے زیادہ امپورٹ بل تیل کا ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کو کلی طور پر انجن سے اونٹ پر شفٹ کرنے سے یہ رقم بچے گی۔ پھر ہمیں برادر ملکوں سے تیل ادھار لینے کے لئے گڑگڑا گڑگڑا کر منتیں نہیں کرنی پڑا کریں گی۔ سڑکوں اور پلوں کا خرچہ بچے گا چونکہ اونٹ کو سڑک کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دریا آ گیا تو ویسے تو اونٹ پیدل ہی کراس کر لے گا ورنہ کشتی استعمال کی جا سکتی ہے۔ یعنی ڈیویلپمنٹ بجٹ میں بھی کم از کم نوے فیصد کٹوتی کی جا سکتی ہے۔ ہسپتالوں کا خرچہ بھی بچے گا۔ عرب ممالک میں اونٹنی کے دودھ اور اس سے حاصل ہونے والے دیگر مائع جات کو بطور دوا استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی ہر طرح سے فائدہ ہے۔ حکومت اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کرے تو پاکستان کو جلد ہی ایک امیر ملک بنایا جا سکتا ہے۔ جہاں حکومت کے عالی دماغ مشیر ملکی معیشت کو پلٹا دینے کے دیگر منصوبے سوچ رہے ہیں وہاں اس منصوبے کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar