قید شریعت میں گرفتار عاشقی اور ہماری گھریلو صنعت


خاندانی منصوبہ بندی کو اگر انگلش میں ادا کیا جائے تو اس لفظ میں اپنی طرف کھینچنے کی بہت صلاحیت ہے۔ کچھ لوگ اسے اردو میں ادا کرتے جھجک محسوس کرتے ہیں اور اس سے دور رہتے ہیں اورکچھ انگلش سے ازلی بیر رکھتے ہوئے اس پر عمل کرنے سے گریزاں۔ بعض دانشور اسے شرم وحیا کے منافی سمجھتے ہوئے اس پر بات کرنا جرم قرار دیتے ہیں اور خود شرع ننگی ہے کہہ کر نابالغ پر بھی سب کھول دیتے ہیں۔ حالانکہ فیملی پلاننگ پر بات کرنا جرم ہے نا غیرت کا مسئلہ۔

لیکن چند لوگوں نے اسے انا کا مسئلہ بنا رکھا ہے۔ ساٹھ کا عشرہ تھا جب خاندانی منصوبہ بندی کا منصوبہ سرکاری سطح پر متعارف ہوا۔ تو منصوبہ سازوں سے زیادہ منصوبے سے روکنے والے سرگرم نظر آئے۔ جس میں حسب روایت اور توفیق سے بڑھ کر اسے مذہب کا لبادہ اوڑھا کر غیرت دین دکھانے کے لئے بہت سے دانشور اس میدان میں کود پڑے۔ اور اسے مذہبی مسئلہ بنا کر چھوڑ دیا۔ حالانکہ یہ مذہبی نہیں سراسر سماجی مسئلہ تھا۔ ہم ہمیشہ سے سنتے پڑھتے آرہے ہیں کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہیے۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ پھیلنے کے بعد چادر دیکھتے ہیں۔ اور اس کے کم پڑنے پر یاتو مانگنا تانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ یا پھر چھوٹی چادر کو کھینچ کھینچ کر بڑاکرنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔ اس چادر میں آنے والا ہر شخص اسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور اسی کھینچا تانی میں چادر مختلف حصوں میں بٹ جاتی ہے یو ں اس پہ بیٹھنے والا ہر شخص چادر کا چھوٹا سا حصہ ہاتھ آنے کی بنا پر ذاتی طور پر صاحب چادر ہو جاتا ہے۔

اور یوں اس چادر کے لئے مزید پاؤں پھیلانے والے اکٹھے کر لئے جاتے ہیں۔ آبادی کو کنٹرول کرنے والی بات کو کفر جانا جاتا ہے۔ کبھی لاؤڈ سپیکر کا استعمال بھی کفر میں شامل تھا۔ لیکن آج وہی کفر کا فتوی لگانے والوں کا طبقہ اسی کفر کے پتلے کو ہاتھ میں تھامے ایمان بانٹتا پھرتا ہے۔ یہ طبقہ تو پیپسی کو بھی کفر میں تولتا ہے۔ ان کے ہاں کسی کو خوش کرنے کے لئے دو میٹھے بول بھی کفر ہیں۔ یہ گھر میں گڑیاؤں کے داخلے کو بھی کفر جانتے ہیں۔

ان کے ہاں جینز پہننا کفر کی علامت تو ہے لیکن بھوکے، ننگ دھڑنگ گھومتے بچے پکے ایمان کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو زندگی کے ہر عمل اور ہر قدم پر کفر کا فتوی لگا کر سنگسار کردیں۔ یہ مُردوں کو زندہ، اور زندوں کو مُردہ بنانے کے فن سے بخوبی آشنا ہیں۔ آبادی کو کنٹرول کرنے کی بات ہو تو یہ زمینی حقائق کو فراموش کر کے آسمان کی وسعتوں تک جا پہنچتے ہیں۔ اور مثال کے لئے خدا کے رزاقی صفت کو بیچ میں لے آتے ہیں۔

آج دو وقت کی روٹی میسر نہ ہونے والوں کو آنے والے کل میں جنت کی انواع و اقسام کے کھانوں سے لطف اندوز کروانا شروع کر دیتے ہیں۔ زندگی کی پلاننگ پر بات نہ کرنے والے مرنے کے بعد کا پلان سامنے رکھ دیتے ہیں۔ خدا کے حضور جوابدہ ہونے کا ڈراوا دیتے ہیں۔ تو کوئی ان سے پوچھے کیا خدا ان سے یہ نہ پوچھے گا کہ ایک معصوم بچے کو انسان بنانے کے لئے کیا کیا تم نے۔ خدا کی رزاقیت و رحمانیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ لیکن کچھ زمینی حقائق بھی ہیں ان کو بھی تسلیم کر لینا چاہیے۔

فیملی پلاننگ کو کفار کی سازش کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اہل کفر کے ہاں بھی انسانوں کے بڑھتے ہجوم کو روکنے کا چلن عام ہے اگر یہ صرف اسلام دشمنی میں ہوتا تو صرف مسلمانوں کو اس پر اکساتے اور خود سینکڑوں کے حساب سے ”لادن“ پیدا کر کے دور گھاٹیوں میں اسلحہ چلانا سکھا رہے ہوتے۔ اور مسلمانوں کے خلاف ”مجاہدین“ کی کھیپ تیار کرنے میں مشغول رہتے۔ لیکن ہمارے ہاں ایسے دانشوروں کا فقدان نہیں جو اہل مغرب کی اس خوبی سے انجان ہیں کہ وہ خود بھی فیملی پلاننگ پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔

بس ایسے دانشور اس بات کا خصوصی ادراک رکھتے ہیں کہ فیملی پلاننگ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ان کو کون کون سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ بچوں کی کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے پورے محلے میں رعب رہتا ہے۔ دادا کی جائیداد میں ایک گھر کے زیادہ افراد حصہ بٹورتے ہیں۔ ایسے دانشور یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر کسی جگہ قبضہ کرنا ہو تو کرائے کے لوگ نہیں اکٹھا کرنا پڑتے۔ شریکوں سے لڑائی جیتنا آسان ہوتا ہے کہ اکیلا شخص تو مارا ہی جاتا ہے یا پھر مار کھا کر ہسپتال جا پہنچتا ہے۔

اگر کسی جگہ نیاز بٹ رہی ہو تو ہر ایک کا علیحدہ حصہ اکٹھا کرنے پر نیاز زیادہ اکٹھی ہوجاتی ہے۔ ان دانشورروں کے خیال میں فوت ہونے کی صورت میں چار جی کاندھا دینے کو بھی ضرور چاہیے ہوتے ہیں۔ ان کو یقین ہوتا ہے کہ ان کے فوت ہونے پر اہل محلہ یا قریبی عزیز ان سے ہر گز صلہ رحمی نہ نبھائیں گے اور ایدھی اور چھیپا والے بھی ان کے کام نہیں آئیں گے۔ یہ دانشور فیملی پلاننگ کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کو آج بھی اتنا ہی معیوب سمجھتے ہیں جتنا ایک صدی پہلے۔

یہ دانشور عربی قاعدہ پر عبور حاصل کر کے خود کو خواندہ کی فہرست میں شمار کرتے ہیں بلکہ یہ ایمان بھی پختہ رکھتے ہیں کہ زیادہ پڑھنے سے نہ صرف بینائی جاتی ہے بلکہ جدید تعلیم عقل کو بھی کھا جاتی ہے۔ سو اسے حاصل کرنے سے گریز کیا جائے۔ اور اس کے لئے اپنے تیئں انھوں نے جدید تعلیم کو خود سے دور کر کے غیر مسلموں سے خوب بدلہ لیا۔ ان عقل کل لوگوں کا یہ بھی دعوی ہے کہ ہم بڑے بڑے علم والوں کو بنا علم حاصل کیے مناظرہ میں ہرا سکتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2