سوشل میڈیا کے ٹھگ


پہلے زمانے میں ٹھگ ہوتے تھے۔ جو شہروں کے بازاروں اور راستوں میں جانے والے قافلوں کے افراد کا اسباب دھوکہ دہی سے لوٹ لیتے تھے۔ وہ بہت چرب زبان اور ہاتھ کی صفائی دکھانے کے ماہر ہوتے تھے اور عوام الناس کو بہ آسانی بے وقوف بنا کر اپنی راہ لیتے تھے۔

ٹھگ اب بھی موجود ہیں لیکن اب وہ خود کو دھوکہ دے رہے ہیں اس کی تازہ مثال سوشل میڈیا پر پچھلے پندرہ دن سے نظر آ رہی ہے۔ ہر سماجی مسئلے پر ٹھگ چرب زبانی دکھانا شروع کر دیتے ہیں۔ نتیجا مسئلے کا دور رس حل نکلنے کے بجائے معاملہ اور الجھ جاتا ہے۔ محبت کا دن منانے کے حوالے سے دائیں اور بائیں کی طرف سے دلائل طبعیت مکدر کرتے ہیں، حیرانی تب ہوتی ہے جب ایک دوسرے کی تضحیک کرنے کے لئے چند سطریں لکھی جاتی ہیں اور ہاں میں ہاں ملانے والے لکھنے والے فرد کوشاباشی دے رہے ہوتے ہیں جب کہ مسئلہ جوں کا توں موجود رہتا ہے۔

پہلے بات کرتے ہیں مخالفت کرنے والے گروہ سے۔

کیا آپ نے معاشرے میں تمام اسلامی شعائر کو لاگو کروا دیا ہے کیا دین کے نام پر تفرقہ بازی اور اختلافات ختم ہو گئے ہیں۔ جو اس غیر ضروری مسئلے کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ کیا خرید و فروخت اور ناپ تول کے معاملات خالص اسلامی طرز پر رائج ہو گئے ہیں۔ کیا ممنوعہ جانوروں کے گوشت کی فروخت و ترسیل بند ہو گئی ہے۔ کیا معاشرے کے ہر غریب نوجوان کو روزگار مل گیا ہے کیا ہر غریب دختر کی شادی کروا دی گئی ہے کیا جہیز جیسی قبیح رسم کا خاتمہ ہو گیا ہے۔

کوئی بہو اب جلائی نہیں جا رہی ہے، کوئی بچی یا بچہ ریپ نہیں ہو رہا ہے کیا اسلامی بھائیوں نے ریپ کے مجرم کو فوری سزا کا قانون لاگو کروا دیا ہے، کیا ڈکیتیاں بند ہو گئی ہیں۔ کیا معاشرے میں اپنے سے کمزور کو ہراساں کرنا اس کے حقوق غصب کرنا بند کر دیا گیا ہے۔ کیا شراب اور قحبہ گری پاکستان میں بند ہو گئی ہے۔ کیا راہ چلتے خواتین پر آوازے کسنے اور انکوچھونے کی کوشش کرنے والے با اخلاق ہو گئے ہیں۔ کیا پڑوسی ملک کی اور دوسرے ممالک کی بے ہودہ فلموں تک عوام کی رسائی بند ہو گئی ہے۔ نہیں نہ تو مان لیجیے کہ ہم دینی شعائر پر بھی نہیں ہیں۔ اور نہ ہی علماء کرام عوام کی تربیت دینی خطوط پر کر سکے ہیں۔ کیونکہ دین تو حکم دیتا ہے کہ رک جاؤ۔ ہر اس فعل سے رک جاؤ جو تمھارے خود کے لئے اور اجتماعی طور نقصان دہ ہے۔

اب بات کرتے ہیں حمایت کرنے والے گروہ کی۔

ہمارے سماج میں محبت کے نام پر استحصال کیا جاتا ہے بالخصوص عورت پر۔ بیس سال پہلے بھی محبت کے نام پر محبت کرنے پر بدنامی عورت کے حصے میں آتی تھی۔ اب بھی جب کہ معاشرہ اسمارٹ ہے۔ بدنامی کا بوجھ اٹھانا عورت کا ہی حصہ ہے، محبت کرنے پر عورت بلیک میل ہوتی ہے۔ جس معاشرے کے ستر فیصد مرد عورت کو پردے کی افادیت پر لیکچر دیتے ہوں لیکن خود کسی دوسرے کی بہن یا بیوی سے رابطہ رکھنا چاہتے ہوں بلکہ رکھتے بھی ہوں۔ رات گزارنے کا دھندہ فائیو اسٹار ہوٹلز اور گیسٹ ہاوسز میں جاری و ساری ہو۔

جہاں دین کی آڑ میں لواطت اور چھوٹی بچیوں کا ریپ ہوتا ہو۔ جہاں پڑھا لکھا مرد بھی آفس میں خواتین کے سامنے فحش جوکس سنائے۔ بائیس سال پہلے میری پھوپھو کے ایک سہیلی نے یہ کہا کہ محض تنگ کرنے کے لئے فحش گوئی کرتے ہیں، اور میری سہیلی اب بھی یہی بتاتی ہے۔ گویا بائیس سال پہلے بھی وہی حال تھا اور اب بھی یہی ہے۔ لوگوں کو اتنی تمیزنہیں آئی کہ بیڈ جوکس صرف اپنے قریبی دوستوں سے شئیر کرتے ہیں۔ بلکہ اب تو لوگ واٹس ایپ کر کے بتا رہے ہوتے ہیں۔

مرد خود گرل فرینڈ رکھنا چاہتا ہے اور رکھتا بھی ہے لیکن سہاگ رات کو بیوی کا پردہ بکارت محفوظ چاہتا ہے۔ ذاتی دوستوں میں ایسا ہوا کہ بیوی کی پاکیزگی پر شک ہوا تو طلاق دے دی حالانکہ صاحب خود دوستوں کی محافل میں ڈرنک کرتے اور لاتعداد گرل فرینڈز کے مالک تھے۔ اور ایسے کئی واقعات ہیں۔ اخبارات کی خبریں اور کورٹ کے کیسسز دیکھے جائیں تو بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے، ایک بیوی پر اکتفا مجبورا کیا جاتا ہے، دوسری شادی کے حق میں دلائل دیے جاتے ہیں حالانکہ صرف ایک آیت میں صرف اجازت کا ذکر ہے حکم نہیں ہے لیکن دین کا حکم جو کہ ازداوجی کمنٹمنٹ ہے اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ بہت سے افراد دوسری خواتین سے تعلقات رکھتے ہیں۔

جس معاشرے میں لڑکی کے ساتھ بنا شادی کے تعلقات ہوں وہ چھنال سمجھی جاتی ہو اور شادی ماں کی پسند سے کی جاتی ہو، وہاں محبت کا دن منانے پر خواتین کی طرف سے دلائل طبعیت مکدر کرتے ہیں۔ محبت رسک لینے کا نام نہیں ہے بلکہ روحانی و جسمانی سکون حاصل کرنے کا نام ہے۔ لیکن جہاں لوگوں کی اخلاقیات اتنی کمزور ہوں کہ اپنے بیڈروم کی باتیں دوسروں کو بتاتے ہوں اور مرد کے تین چار دوست ہوں جن کو وہ اپنی محبت کی داستان سناتا ہو اور خلوت کے لمحات کی تصاویر بھی شئیر کرتا ہو اور موقع ملتے ہی لڑکی کو بلیک میل بھی کر دیتا ہو ایسے سماج میں نوجوان نسل کو محبت کا دن منانے کی ترغیب دینا مضحکہ خیر ہے، کیونکہ محبت کے سود و زیاں عورت کے حصے میں آ رہے ہیں۔ جھولوں میں، کچرا کنڈیوں میں ملنے والے بچے نہ جانے کس کس کی لمحاتی محبتوں کا ثمر ہوتے ہیں۔ اور ہم لمحاتی محبت کے حق میں دلائل دیتے ہیں، کیونکہ نوجوان محبت کا مطلب ہی جسمانی تعلق سمجھتا ہے۔ کیونکہ ہم نے تربیت ہی نہیں دی ہے کہ محبت ہے کیا۔

” محبت ایک دوسرے کی عزت کرنے کا نام ہے۔ محبت کے نام پر ایک دوسرے کی عزت سے کھیلنے کا نام نہیں ہے“۔

میں محبت کے حق میں ہوں۔ محبت پر تو کائنات کی تخلیق کی گئی ہے۔ محبت انسانیت کی معراج ہے۔ محبت کو اجتماعی طور پر فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

کاش کوئی ایسا دن منا لیتے جس دن سانولی چھوٹے قد کی یا موٹی لڑکی کی شادی کروائی جاتی۔ کم صورت والے یا کم تنخواہ والے لڑکے کا نکاح کروا دیا جاتا، لیکن ہم نے تو خود بھی اور اپنے بچوں اور نوجوان نسل کو پڑوسی ملک کی فلمیں دکھا دکھا کرمحبت کو بس لڑکا لڑکی کی محبت تک محدود کردیا ہے۔ جب کہ محبت بہت وسیع معنی رکھتی ہے اور ان معنوں کے مفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے۔ محبت کے پہلے معنی تو یہی ہیں کہ ایک دوسرے کی عزت کی جائے، سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کی تضحیک اور ایک دوسرے کونیچا دکھانے کے بجائے اس کے ذریعے ملک میں قانون پر عملدرآمد پر زور دیا جائے۔

اپنے ساتھ ٹھگی نہ کریں یہ خود کو ٹھگنا ہے۔ خود کو دھوکا دینا ہے کہ ہم درست ہیں، دوسرے کی تذلیل کر کے اپنے لائیکس بڑھا رہے ہیں۔ لوگ فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم دس سال پندرہ سال سے انٹر نیٹ استعمال کررہے ہیں، استعمال کر کے کیا کارنامہ انجام دیا؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کوئی ایک اچھا فعل ہی معاشرے میں رائج ہو جاتا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ نوجوان نسل بد تہذیب اور کنفیوز ہو گئی ہے۔ سمجھدار افراد کا کام یہ ہونا چاہیے کہ ملک میں قانون کی درست بالادستی اور نئی نسل کو ایک متوازن سوچ و کردار کا حامی بنانے کی کوشش کریں۔ کیونکہ یہی ہمارے ملک کی اہم ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).