سیلف ڈیفنس میں قتل کرنے کا معاملہ


خبروں اورسوشل میڈیا پر ان دنوں سیلف ڈیفنس کا بڑا چرچا ہے۔ وجہ وہ ویڈیو ہے۔ جس میں کراچی بھینس کالونی کے یوسی چیئرمین کے ہاتھوں ارشاد رانجھانی کو قتل کرتے دیکھاجاسکتا ہے۔ ارشاد رانجھانی۔ قوم پرست جماعت کا رکن۔ جسے ڈاکو قرار دے کر قتل کیا گیا۔ اس کا کرمنل ریکارڈ بھی موجود تھا۔ یو سی چیئر مین نے پہلے سیلف ڈیفنس کے نام پرفائرنگ کرکے اسے زخمی کیا۔ پھر ہجوم میں موجود افراد میں سے کسی کو بھی اس مبینہ ڈاکو کو اسپتال لے جانے کی بھی اجازت نہ دی۔ یہاں تک کہ وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے بھی ارشاد رانجھانی کو اسپتال منتقل نہیں کیا۔ اور وہ تڑپ تڑپ کر دم توڑگیا

یہ ویڈیو بہت دلخراش ہے جو سوشل میڈیا پر مسلسل شیئر ہورہی ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ یو سی چیئرمین نے ارشاد رانجھانی کو کیوں قتل کیا؟ وہ واقعی عادی مجرم تھا بھی یا نہیں؟

یہاں اہم بات یہ ہے کہ سیلف ڈیفنس میں حملہ آور یا ملزم کو کس حد تک ہٹ کرکے زخمی کرنا یا نقصان پہنچانا قانوناً جائز ہے؟ پاکستان میں سیلف ڈیفنس کے حوالے سے کوئی قانون ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے تو بین الاقوامی اور قومی سطح پر یہ قانون کیا کہتا ہے؟ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ نفرت انسان سے نہیں بلکہ اس کے اندر کی برائی سے کرنی چاہیے۔ لیکن افسوس ہم اس جنگل میں رہتے ہیں جہاں کسی کو بھی ڈاکو قرار دے کریا اس پر توہین رسالت کا الزام لگا کر ہجوم اکٹھا کرکے مار دینا یا جلا دینا انتہائی آسان ہے۔ اس طرح کے واقعات پاکستان میں نئے نہیں۔ سیالکوٹ سانحہ ہی اٹھاکر دیکھ لیں۔

کس کو یاد نہیں دو ہزار دس کا وہ دن۔ جب دو بھائیوں منیب اور مغیث کو ڈاکوقرار دے کر ڈنڈے مار مار ہلاک کردیا گیا اور ہجوم میں موجود بے حس افراد میں سے کسی کو اتنی جرات نہ ہوئی کہ آگے بڑھ کر یہ ہی پوچھ لیتا کہ ان کا قصور کیا ہے؟ بعد میں کیس چلا اور دونوں بھائیوں کی بے گناہی ثابت ہو گئی۔

اپنے میڈیا کریئر کے ابتدائی دنوں میں یہ پہلا واقعہ تھا جو میں نے دیکھا۔ نہ جانے پاکستانی معاشرے میں سیلف ڈیفنس کے نام قتل و غارت کی شروعات تھی یا اس سے پہلے بھی اتنی ہی سفاکی سے لوگوں کو ڈاکو قرار دے کر قتل کیا جاتا رہا تھا۔

لیکن اس کے بعد جیسے یہ واقعات معمول بنتے گئے کبھی توہین مذہب کے نام پر تو کبھی ڈکیتی کی وارادات کے دوران خود کو بچاتے ہوئے نہ جانے کتنے لوگ موت کی نیند سلا دیے گئے۔ ہر گزرتے وقت اور دن کے ساتھ سیلف ڈیفنس کے نام پر کبھی کراچی میں عوام نے لوٹنے والے ڈاکوؤں اور چوروں کو زندہ جلانا اپنا حق جانا تو کبھی کسی ریمنڈ ڈیوس نے پاکستانی شہریوں کے خون سے رنگے ہاتھ دیت کی رقم سے صاف کیے۔

سیلف ڈیفنس میں فائرنگ کا حق عام شہریوں کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی حاصل ہے لیکن یاد رہے کہ سیلف ڈیفنس میں کسی پرفائر کھولنے اور ملزم کو کس حد تک زخمی کرنا ہے اس سے متعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بھی کچھ شرائط اور ضوابط ہیں۔ جس کے مطابق اہلکارصرف اس وقت فائرکرسکتا ہے جب اس پر حملہ کیا جائے یا اس کے لئے اپنا دفاع ناگزیر ہوجائے۔ اگرمشکوک شخص گاڑی میں سوارہواورپولیس کے اشارے پرنہ رُکے توفائرکرنے کی بجائے اس کا تعاقب کیا جائے۔ مختصرا پولیس اہلکارکی پہلی ترجیح مجرم، ملزم یا مشکوک شخص کوزندہ حالت میں گرفتارکرناہے۔

ان تمام قوانین اور ایس او پیز کے باوجود جعلی پولیس مقابلوں میں کتنے ہی بے گناہ شہریوں کونشانہ بنا کر نہ جانے کتنی ماؤں کی کوکھ اجاڑدی گئی۔ کتنی بہنوں کے ڈھال، کتنی بیٹیوں کے سر کا سایا چھنا اور ناجانے کتنی عورتوں کی مانگ سونی کردی گئی۔

2018 اور رواں سال اس طرح کے واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان واقعات میں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ملوث پائے گئے جب 2018 میں صرف جنوری کے مہینے میں نقیب اللہ محسود، رکشہ ڈرائیور مقصود اورانتظار کو بغیر کسی ثبوت کے مبینہ پولیس مقابلوں میں ماردیا گیا۔ پھررواں سال ساہیوال میں سی ٹی ڈی نے جس طرح چار بے گناہ شہریوں کو دہشتگرد کا لیبل لگا کر نشانہ بنایا۔ یہ سب ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ کی واضح مثالیں ہیں۔

اس حوالے سے پاکستانی قوانین اٹھاکر دیکھیں۔ تو پاکستان پینل کوڈ عام شہری کو عزت پر حملہ کرنے والے، جائیداد کو نقصان پہنچانے والے یا ڈکیتی کی نیت سے حملہ کرنے والے ملزم کو سیلف ڈیفنس کے قانون کے تحت قتل کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن اس قانون میں بہت سے سقم اور ابہام موجود ہیں۔ جیسے ریمنڈ ڈیوس نے 2010 میں ڈکیتی کی واردارت کے دوران دو افراد کو سیلف ڈیفنس میں فائرنگ کر کے قتل کیا۔ لیکن سیلف ڈیفنس کا قانون اس بات کی وضاحت کرنے میں ناکام ہے کہ عزت، جان اور مال پر حملہ کرنے والے سے بچاؤ کے لیے حملہ آور کو کس حد تک نقصان پہنچایا جاسکتا ہے؟

اپنابچاؤ کرنے کے بعد کیا زخمی حملہ آور کو تڑپنے مرنے کے لیے وہیں چھوڑ دینا چاہیے؟ سیلف ڈیفنس کے قانون کا اصل مقصد اپنا بچاؤ کرنا ہے یا دوسرے کی جان لینا؟ کیا سیلف ڈیفنس کی آڑ میں کسی کو مبینہ حملہ آور پر ظلم کرنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے؟ سیلف ڈیفنس میں کیا گیا قتل حادثاتی تھا یا پھر سیلف ڈیفنس کی آڑ میں ذاتی دشمنی کا شاخسانہ؟

پاکستان میں سیلف ڈیفنس کا قانون تو موجود ہے لیکن اس میں مزید بہتری لانے اور اس میں موجود ابہام اور سقم کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ سیالکوٹ کے منیب مغیث، کراچی کے جلائے گئے اور قتل کیے گئے مبینہ ڈاکوؤں اورمبینہ پولیس مقابلوں میں مارے گئے بے گناہ ’دہشتگردوں‘ کی طرح نہ جانے مزید کتنے شہری ذاتی دشمنی، نفرت کی بھینٹ چڑھ جائیں گے اور قاتل سیلف ڈیفنس کے قانون کی اوٹ میں چھپ کر آسانی سے نکل جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).