نئے پاکستان نے ہم سے پرانا عمران خان چھین لیا


الیکشن جیتنے کے بعد جتنی شدت سے کپتان کی کابینہ ٹیم کے انتخاب کا تجسس تھا اتنا شاید ہی کسی اور کام کا ہوگا۔ بعض کارکنان نے تو سوشل میڈیا پر ڈریم ٹیم بھی چلادی تھیں۔ اس وقت کپتان کا یہ جملہ بھی کانوں میں گونجتا تھا کہ میں ایک بہترین ٹیم دوں گا۔ لیکن پھر سب نے دیکھا کہ کپتان کی ٹیم کی سیلیکشن ”پرچی“ کی نذر ہوگئی۔ مشرف دور کے وزرا نے فوراً اپنی اپنی وزارتیں بحال کروالیں اور جو باقی بچیں وہ پی ٹی آئی کے ممبران کے حصے میں آگئیں۔

ٹیم کے ہر کھلاڑی کے ساتھ نرالا انداز اپنایا گیا۔ نعیم الحق کی جگہ فواد چودھری کو دی گئی اور اس کے ساتھ ہی افتخار درانی جیسا فطین انسان دیا جس کی مدد سے پہلی بار عوام نے ہزار کروڑ، ہزار ارب قسم کے کرپشن کے اعداد و شمار سنے اور بے مقصد بحث کا ایک وسیع و عریض میدان مل گیا۔ قانون کی وزارت فروغ نسیم کو دینے کے بعد شہزاد اکبر کو بھی ساتھ جوت دیا یعنی کہ زمینی حقائق اور سازشی تھیوریوں کا ملغوبہ بن سکے۔ پی ٹی آئی کے دماغ اسد عمر کے ساتھ ڈاکٹر عشرت حسین کا ہمزاد مسلط کردیا گیا۔

عوام نے یہ سوچ کر قبول کرلیا کہ عمرام خان کی کرشماتی شخصیت کے تحت یہ کابینہ آنکھ بند کر کے تابعداری کرے گی۔ اور نیا پاکستان بہرحال بنے گا ہی۔ چنانچہ جب نیا پاکستان مارکہ حکومت اپنے تئیں معیشت کی بہتری پر کمر کس رہی تھی تو کسی کے ”اشارے“ پر ایک مجاہد اٹھ کر ڈیم فنڈ کا نعرہ بلند کرکے سرمایے کو ایک غیر حقیقی مقصد کی طرف رجوع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حسب توقع حکومت اس دھوکے میں آگئی اور مجاہد کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کو اس نعرے کی غیر سنجیدگی کا احساس ہوگیا اور باوجود مار اور پیار کے، تیرہ ارب روپے کے اشتہار کے بدلے نو ارب ہی اکٹھے ہو پائے۔ مجاہد عظیم، حکومت پر چار ارب کا قرضہ چڑھا کر چلتے بنے۔

نیا پاکستان مارکہ حکومت نے سوچا کہ معیشت کی بحالی کے لئے آئی ایم ایف سے قرض لینا ناگزیر ہے۔ لیکن آئی ایم ایف کی بنیادی شرط یہ ہے کہ پاکستان یقین دلائے کہ وہ یہ قرض، کسی اور ملک کا قرض اتارنے کے لئے نہ دے، یعنی کہ سی پیک کے نام پر چین کو نہ لوٹائے۔ اس کے لئے لازمی تھا کہ سی پیک معاہدے کو پبلک کیا جائے (پاکستان نے تاحال سرکاری سطح پر سی پیک معاہدے کی شرائط و ضوابط کو عوامی طور پر شائع نہیں کیا) ۔

نیا پاکستان نے دیگر شرائط جیسا کہ روپے کی قدر گرانا، بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھانا وغیرہ پر تو فوری عمل کرلیا لیکن جیسے ہی سی پیک کی طرف بڑھی طوفان کھڑا ہوگیا، بحث شروع ہوگئی، وضاحتیں آنے لگ گئیں، اور چین ناراض ہوگیا۔ چنانچہ آرمی چیف کو جا کر وضاحت کرنی پڑی اور آئی ایم ایف کی ”سخت“ شرائط پر نہ جھکنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

نیا پاکستان مارکہ حکومت نے عوام کو ایک بہترین ضلعی نظام دینے کی بھرپور تیاری کر رکھی تھی جو کہ اس کے منشور کا بنیادی نکتہ بھی تھا لیکن اسی دوران ایک صوبائی عدالت کے حکمنامے سے تجاوزات کے خلاف آپریشن کی ایسی لہر اٹھی کہ پورا ملک اس کی لپیٹ میں آگیا۔ عدم تجاوزات کو حکومت نے فوری طور پر گود لے لیا اب جب عدلیہ نے عدم تجاوزات کیسز کو ٹھنڈا کرلیا تو حکومت بھی اکیلی پڑگئی۔ مزید کسر تب نکل گئی جب لوکل گورنمنٹ سسٹم کے روح رواں نیب زدہ ہوکر مستعفی ہوگئے۔

نیا پاکستان مارکہ حکومت کو سیاست، بیوروکریسی اور پولیس اور دیگر اصلاحات کے لئے قانون سازی کی سخت ضرورت پڑی۔ لیکن دوسری طرف نیب کی حرکات اور فواد چودھری کے بیانات سے ایوان میں جھگڑا معمول بن گیا۔ نیب نے کھل کر سیاست چمکانا شروع کردی اور کچھ بڑی گرفتاریاں ڈال کر لاحاصل بحث پر لگا دیا۔

نیب کی کارروائیوں کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگتا ہے کہ کئی ماہ گزر جانے کے بعد بھی شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق اور دیگر پر کیسز شروع ہی نہیں کیے جا سکے۔ جبکہ فواد چودھری کی جانب سے نیب کی ترجمان کے طور پر پیش کیے گئے ہزار ارب، ہزار کروڑ ٹائپ کے الزامات بھی کاغذی ہی رہے۔ لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی نے کچھ جرات دکھاتے ہوئے شہباز شریف کو کمیٹی چئیرمین بنایا تاکہ مشترکہ اور موثر قانون سازی کی فضا بنے کہ کسی نے شیخ رشید کی چڑھائی کروا دی۔

برا یہ نہیں کہ نیا پاکستان مارکہ حکومت غلط پالیسیز پر کاربند ہے، جمہوری حکومتوں کے ظرف میں غلطیوں کی گنجائش رہا کرتی ہے کیونکہ وہ اپنے منشور کو تجربات سے گزارتی ہیں۔ اور جمہوریت کوشش، غلطی، درستگی کی بھٹی سے گزر کر کندن بنتی ہے۔ غلط یہ بھی نہیں کہ نیا پاکستان مارکہ حکومت، اداروں کی طاقت کے آگے بے بس ہیں کیونکہ ہمارے ادارے واقعی طاقتور ہیں۔ جنھوں نے بھی ان کو للکارا وہ جانے سے گئے یا جیل۔

غلط یہ ہے کہ نیا پاکستان مارکہ حکومت اپنی پالیسیز کی بجائے ان اداروں کے دباؤ اور کاموں کا دفاع کرتی ہے۔ یہاں تک کہ یو ٹرن کو بھی جائز قرار دیتی ہے۔ اگر وزیراعظم ڈیم فنڈ میں نہ کودتے تو جو چار ارب روپے کا چونا لگا اس کی کم از کم جواب دہی تو ہوتی۔ اگر عدم تجاوزات پر فواد چودھری کی بڑھک بازی کو لگام ڈالی جاتی تو کم از کم آج حکومت اس نامکمل اور غیر منصوبہ بند اقدام کی طعن و تشنیع سننے کے لئے تنہا تو نہ رہ جاتی، یا کم از کم خود ہی پالیسی وضع کرلیتی۔

اسی طرح اگر معاشی کارکردگی کو مدنظر رکھتی تو اپنی معاشی پالیسی کو کسی طور قابل عمل بناتی۔ اور نہیں تو کم از کم خوساختہ سو یومیہ کارکردگی کے احتساب کے تناظر میں ہی زبیدہ جلال، فہمیدہ مرزا، شفقت محمود، خالد مقبول صدیقی اور فروغ نسیم جیسے وزرا کی بازپرس ممکن ہوسکتی اور ٹرانسپلانٹڈ مشیران برائے نیب شہزاد اکبر کے بنائے سوئس اکاؤنٹس والے کیسز کے کھوکھلے پن پر گھر بھیج دیتی۔ یہی مشیران اب علیم خان پر نیب کا پھندا ڈال کر پی ٹی آئی کارکنان کو بددل کرنے لگے ہیں۔

اس میں نقصان کسی سیاسی پارٹی یا حکومت سے بڑھ کر جمہوری اقدار کو ہونا ہے۔ یار لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ جمہوریت اتنی بری شے ہے کہ عمران خان جیسا ایماندار شخص بھی اس ملک کو کامیابی کے راستے پر نہ لاسکا اور ایک فرشتہ صفت انسان بھی جمہوریت میں آکر گندا ہوگیا۔ لیکن میرا المیہ کچھ اور ہے۔ میرا المیہ یہ ہے کہ یہ عمران خان بانوے کے ورلڈکپ والا عمران خان نہیں۔ اس عمران خان کی مرضی سے ٹیم تو کیا، کرکٹ بورڈ تک چلتا تھا لیکن اس عمران خان کو کیا ہوا جو آیا کرشماتی لیڈرشپ کے نام پر تھا، منتخب روایتی لیڈر کے طور پر ہوا اور کام ایک انتظامی عہدے دار کے طور پر کررہا ہے۔ پنڈی، پیرنی، تبلیغی کے ملغوبے نے ہم سے ہمارا عمران خان چھین لیا۔ یہ نئے پاکستان کا نیا عمران خان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).