رانا بوتل، اس کے چھلے اور جھلے


رانا اپنا کالج فیلو ہے۔ ہمارا پہلا دن تھا کالج میں۔ جگہ جگہ فولنگ ہوئی۔ کپڑوں پر مہریں لگائی گئیں ڈسکو چرگ (مرغ) کی۔ جدھر سے گزرتے استقبال میں بانگ سنائی دیتی کہ چرگان دی (مرغے ہیں یا ککڑ ای اوئے ) ۔ جتنی بری ہو سکتی تھی اس سے بری ہو رہی تھی پر کتھے۔ کسر باقی تھی۔

ٹھیک سے یاد نہیں کہ میاں افتخار تھے اعظم آفریدی تھے اپنے شیراز پراچا تھے یا امیر صاحب بقلم خود؛ یعنی سراج الحق ہی تھے۔ کالج تشریف لائے تھے خطاب واسطے اور مغرے ہی پولیس آ گئی؛ پھر جو ہم نے پشاور شہر دیکھا گلیوں میں دوڑتے پھرے۔ پیچھے پولیس آگے ہم اور لیڈر پتا نہیں کدھر کو نکل گئے۔

رانا پکا پشوری ہے کالج کی دیوار پر چڑھا دوسری طرف ایسے کودا کہ سیدھا خشک نالے میں گرا؛ وہیں بیٹھا رہا۔ چرسی سا لگتا تھا؛ وہی لک بھی دیتا رہا؛ پولیس سے صاف بچ گیا۔ جب وہ لڑکوں کے پیچھے گئے تو یہ اٹھ کر گھر چلا گیا۔ وہ کالج کا کوٹ نہیں پہنتا تھا۔ اک بار بہت بزتی کرا کے جہانگیر پورہ سے کوئی پندرہ روپے کی کوٹی لے آیا کسی گوری مائی کی اترن۔ وہ پہن کر جب کالج پہنچا تو اسے بوتل کا خطاب مل گیا۔ اٹک پار جسے ڈھکن کہتے ہیں اسے ہماری طرف بوتل کہا جاتا ہے۔

رانا بوتل کمال کاریگر ہے۔ اس کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے۔ انگوٹھی چھلے بنانا اس پر ختم ہے۔ پر اس کے ان کمالات کا آغاز کاریگری کی شروعات بھی وسی بابے کی مارکیٹنگ سے ہوئی۔ ابا نے پنڈ میں اک دُور کی ماسی کی شادی کرانے کی ذمہ داری لی۔ دو کانٹے اک چھلا بنا کر دینا تھا۔

یہ پراجیکٹ وسی بابے نے رانے بوتل کو دلوا دیا۔ اس بغیرت نے ایک تولے کو ہتھوڑے سے کوٹ کوٹ کر اتنا پھیلایا اس کا بالکل ورق بنا دیا۔ پھر آری سے اس کو کاٹ کاٹ کر اک ہار دو کانٹے اک انگوٹھی ایک کڑا بھی بنا لیا۔ ایسا کاغذی سیٹ جب دولہن پہن کر سسرال گئی تو بڑی مشکل سے اسے طلاق ہوتے بچی۔ گالیاں تو ہمیں اس سے زیادہ پڑیں جتنی ہماری اس محنت کا حق تھا پر کام شروع ہو گیا۔

کالج واپسی ہوئی تو دن صرافہ بازار میں گزرتے۔ پہلی بار ایف اے میں فیل ہونے کی وجہ سے صرافہ بازار کی زیارت بھی اک وجہ تھی۔ دوسری وجہ کلاس نہ لینا۔ تیسری وجہ کرکٹ کھیلتے رہنا۔ چوتھی وجہ رانے کے ساتھ فلمیں دیکھنے جانا اور آخری وجہ ہر طلبا تنظیم کا جلسہ اٹینڈ کرنا تھا۔ فیل ہونے کے بعد غیرت آئی۔ گروپ اسٹڈی شروع کی۔ رانے کو سٹیٹس اکنامکس پڑھاتا رہا۔ اس نے پھر بغیرتی کی پاس ہو گیا۔ اپن پھر فیل ہو گیا۔ تسلی بس یہی تھی کہ یہ بھی بس سٹیٹس اکنامکس ہی میں پاس ہوا تھا ویسے فیل ہی تھا۔

اس کے بعد چار سال یہ داخلے بھجواتا رہا پاس ہونے کے لیے۔ جو ہم لوگ کھا پی کر اسے رول نمبر زبانی بتا دیتے۔ یہ امتحان دینے پہنچ جاتا۔ وہاں سے اچھی طرح بزت ہو کر آتا تو ہمیں ڈھونڈتا کہ اوئے کنجرو میری فیس کھا گئے تھے تو مجھے امتحانی سینٹر کیوں بھیجا تھا۔ ایک بار تو اسے پولیس نے بھی پکڑا کہ جب تمھاری رول نمبر سلپ نہیں آتی تو امتحان دینے کیوں پہنچ جاتے ہو۔

پولیس سے یاد آیا۔ رانا انڈیا جانے کا بھی بڑا شوقین تھا۔ وہاں سے ہیرے خرید کر لاتا تھا۔ اتنی گھٹیا کوالٹی کے اتنے سستے ہیرے یہی لا سکتا تھا۔ اس سے ہر بار پوچھتا کہ تم پھڑے نہیں گئے کبھی؟ تو یہ کہتا کہ اوئے وہ جمہوری ملک ہے۔ جمہوریت کے اسے جیم کا نہیں پتا تھا۔ اک بار یہ سن کر اسے کہا ان شا اللہ! اس بار پھڑے جاؤ گے۔ اُس بار یہ دہلی ریلوے سٹیشن پر پکڑا گیا۔ دہلی پولیس نے بھی اس کی اس کے ہم راہی ہمارے ایک سرخے لیڈر کی سیوا ایسی کی کہ انھیں پنجاب پولیس کی کمی محسوس نہیں ہوئی؛ یا یوں کہیں بہت یاد آ ئی۔

رانا بوتل کہتا ہے کہ انھیں چرس اسمگلنگ پر پکڑا تھا۔ ہمارا سرخا لیڈر اس کی حمایت کرتا ہے کہ ایسا ہی ہوا تھا۔ پر پی پی کی وہ ممبر اسمبلی جس کی شکایت پر یہ پکڑے گئے تھے دونوں ؛ وہ کچھ اور بتاتی ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ پکڑے یہ میری شکایت پر گئے تھے کہ مجھے چھیڑا تھا۔ چرس انھوں نے پی رکھی تھی۔ انھیں جب خاتون لیڈر کا یہ بیان یاد کراتا ہوں تو یہ مجھے مارنے کو دوڑتے ہیں۔ کہتے ہیں اصل میں تمھاری کالی زبان ہے جس کی وجہ سے ہم پکڑے گئے تھے۔

اسی رانے بوتل کی وجہ سے ہماری اک گاہک بھی دبئی میں پکڑی گئی تھی۔ یہ سونے میں چاندی مکس کر کے اسے وائٹ گولڈ کہتا تھا۔ یہی کہہ کر ہم بیچتے تھے۔ ہماری پیاری سے گاہک نے یہی سمجھ کر خریدا۔ جب دبئی میں اسٹال لگا کر بیچا تو اس کی عرب گاہک نے لے جا کر ٹیسٹ کرایا۔ وہ چاندی قرار پائی۔ سونا اس میں تھا تو لیکن نامعلوم سا۔ پاکستانی سفارت خانے کی کوشش سے وہ پیاری سی گاہک بچ بچا کر پاکستان پہنچی۔ یہاں آ کر اس نے پھر ہمیں بڑا پیار کیا۔ ہم بھی سیکھ گئے کہ وائٹ گولڈ ایسے نہیں بنتا جیسے ہم بناتے ہیں۔

رانا بوتل کی یاری تھی جس میں خجل ہوتے قیمتی پتھروں جواہرات سے لگن لگی۔ اک امریکی فرم میں نوکری کرنے لگ گیا۔ پھر اپنا کام شروع کیا۔ کہاں کہاں جا کر شوز کیے۔ امریکیوں سے سیکھے سارے حلال دے طریقے گوروں پر آزمائے۔ رانا بوتل نے استاد مان لیا۔

ہم نے ترکمانی اسٹائل میں بنے کڑے ایک بار اسٹال پر رکھے۔ ویسے ہی شرارت کر کے آدھے کڑوں پر قیمت ہزار روپے لگائی۔ باقی آدھوں پر دو ہزار لکھ کر لگا دی۔ جب کوئی گاہک پوچھتا کہ یہ تو اک جیسے ہیں تو اسے کہتے ہزار والے میں ملاوٹ ہے۔ ہزار والا سو کڑا بک گیا ہاتھوں ہاتھ۔ تو دو ہزار والا بھی ہزار کی قیمت پر بیچ دیا۔ لیے تو سارے دو سو روپے فی دانہ ہی تھے۔ رانا تب سے استاد مان گیا۔

ہم الٹے کام ہی نہیں کرتے تھے۔ محنت بھی بہت کرتے تھے فنشنگ پر۔ ہماری ساری الٹی سیدھی حرکتوں کے باوجود ہمارے گاہک ہمارے ہی پیچھے رہتے تھے۔ آپ سمجھتے رہیں کہ وہ ہماری مرمت واسطے ہی پیچھا کرتے تھے۔ بہت دل سے بہت پیار سے بنائی انگوٹھیاں چھلے فرینڈ شپ بینڈ۔ اپنے ہاتھوں سے پہنائے۔ اب بھی کوئی نظر آ جائے تو سننا پڑتا کہ آپ کیوں اس گفٹ جیولری والے کام سے نکل گئے۔

اس ساری کہانی کی وجہ بس اتنی سی ہے کہ رانا بوتل نے فون کیا۔ کچھ انگوٹھیاں بنائی ہیں ان کی فنشنگ کر اپنی ہوتی سوتی پر بیچ دے۔ کیا ویلا بیٹھا بک بک کرتا رہتا۔ آئڈیا تو اچھا ہے۔ اپن سوچ رہا کہ اس بار رانا نقصان کیسے سہہ پائے گا۔ یہ ہوتی سوتی تو گفٹ لے جائیں گی۔ پھر شکریہ واسطے فون بھی کریں گی۔ اپن فون پر بہت اسپارکل اسمائل دیتا پھڑا گیا تو کئی دن ٹکور بھی کرنی ہو گی۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi