شدت پسند گستاخ


حضرات! ہمارا معاشرہ مسائل کے جس کوہ گراں کو عبور کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے وہاں ابھی ہماری معیشت قرض کے پہاڑ کو ہی عبور نہیں کر پائی ایسی صورت میں انتہا پسندی جیسے چھوٹے موٹے مسائل پر بات کرنا یقیناً فارغ لوگوں کا خاصہ ہی ہو سکتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ موضوع کا انتحاب کیا جاچکا، اس واسطے معیشت کا قضیہ کسی اور فارغ وقت پر ڈال دیتے ہیں۔

انتہا پسندی پر بات کرنے سے پہلے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم ایک اسلامی تجربہ گاہ میں رہتے ہیں۔ اسی لئے آئے روز یہاں عالمی امن پسند قوتیں مختلف اسلامی تجربات کرتی رہتی ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ یہ انہی تجربات کا صدقہ، جو اس معاشرے کی سوچ دو انتہاؤں پر جا کر متمکن ہوئی۔ چاہے وہ مختلف طرز معاشرت والا چورن ہو یا گرم پانیوں کو محفوظ کرنے کی خاطر دی گئی قربانیاں، یہاں کے مذہبی ٹھیکیداروں نے عالمی امن کے لیے ایسی ایسی قربانیاں دی ہیں کہ آج بھی بیک وقت سیکڑوں لوگ جنت میں پہنچ جاتے ہیں۔

ویسے مسئلہ یہاں دائیں یا بائیں کا نہیں بلکہ اس معاشرے کا کوئی بھی طبقہ ہو وہ اس امریکن سنڈی سے محفوظ نہیں۔ دائیں بازو کی سوچ کا حامل ہو تو وہ بھی اپنے موقف میں شدت پسند ہے اور اگر کوئی بائیں بازو کے نظریات کا حامل ہے تو اس کو بھی تمام مسائل مذہب ہی میں نظر آئیں گے۔ دراصل علمی مباحث سے لے کر عمومی مناظروں تک، ہماری گفتگو دوسرے کو غلط ثابت کرنے اور اپنی برتری کے اظہار سے آگے آج تک نہیں بڑھ پائی۔

سوچ اور فکر و عمل میں میانہ روی رکھنے والے یا تو ہمارے یہاں نہ ہونے کے برابر پائے جاتے ہیں یا پھر اگر پائے بھی جاتے ہیں تو اکثر و بیش تر معاشرے کی دونوں انتہاؤں کے حامل افراد کے فتوؤں کی زد پر۔ پس یہی وجہ ہے یہاں نہ تو دہشت گردی کے کارخانے ختم ہو سکتے ہیں نہ ہی اپنے چھ فٹ کے جسم پہ اپنی مرضی چلانے والے بے روزگار۔ لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ سوچنے پہ کوئی پابندی تو نہیں لگائی جاسکتی مگر یقین مانیے سوچ ہی وہ قوت ہے جو انسانی جسم تحریک پیدا کرتی ہے جس سے ایک عمل ممکن ہو پاتا ہے۔

مسائل یا معاملات کی نوعیت معمولی ہو یا گھمبیر ہمارے ہاں ہر مسئلہ کو چند لمحوں میں حل کرنے والے اتائی ڈاکٹر اور فتوے بانٹنے والے مفتیانِ کرام ہمہ وقت دستیاب رہتے ہیں۔ بس اسٹیٹس لگائیں اور مشورہ پائیں۔

معاشرے میں پھیلی اس شدت پسندی کی وجوہات پر اگر غور کیا جائے تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ معاشرے کے افراد کی ذہن سازی میں کون کون سے ادارے شریک ہیں۔ دراصل وہاں کا تعلیمی نظام، ذرائع ابلاغ بلکہ معاشرے میں نافذ العمل نظام حکومت کے وہ تمام ادارے جو عوام کے ساتھ معاملات میں شریک ہیں، ایک طرح سے اپنے عوام کی تربیت اور ذہن سازی کر رہے ہوتے ہیں۔ اب چاہے کوئی یونیورسٹی کا طالب علم ہو یا مدرسے سے وابستہ شاگرد، تھانا کچہری کے چکر لگانے والا نو آموز ہو یا روزگار کی تلاش کرتے تعلیم یافتہ بیروزگار، گھر میں ٹیلی ویژن دیکھتی خواتین ہوں یا ریڈیو کے پروگرام سنتا ریڑھی والا پھل فروش، تمام ہی افراد کی ذہن سازی ہمیشہ کسی نہ کسی درجے میں ہو رہی ہوتی ہے۔

چنانچہ جب کچھ عرصے تک کوئی فرد کسی خاص سوچ یا فکر کے ماتحت وقت گزار دیتا ہے تو وہاں سے اس کی واپسی خاصی مشکل ہو جاتی ہے، جیسے ہم اگر گزشتہ چند برسوں سے ٹیلی ویژن پر خبریں سنتے رہیں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ آج 9 بجے کے خبر نامے کی ہیڈ لائنز کیا ہوں گی، تا آں کہ ریاست میں کوئی نیا سیاسی غبارہ نہ پھاڑ دیا جائے۔

ایک تو ماشا اللہ سے ہمارے ہاں آج بھی انگریز کا دیا ہوا تعلیمی نظام قائم ہے۔ جس کے متعلق خود اس کے بنانے والے نے یہ کہا تھا کہ ہمارا مقصد ایسے انگریزی غلام پیدا کرنا ہے، جو بظاہر تو ایشیائی دکھیں گے لیکن حقیقت میں ان کے دل و دماغ انگریز کے غلام ہوں گے۔ دوسرا سچ کے نام پر جھوٹ، ایمان کے نام پر منافقت، خدمت کے نام پر کاروبار آج بھی مفت میں سکھلایا جاتا ہے۔

کوئی صاحب عقل ہو تو ونسٹن چرچل کی برطانوی پارلیمنٹ میں کی گئی ہندوستانیوں کے بارے، تقاریر سنے تا کہ اسے معلوم ہو سکے کہ کیسے یہاں نفرت، تعصب اور تقسیم کے بیج بوئے گئے۔ کیسے یہاں کی سیکڑوں قومیتوں، مذہبی اقوام کو آپس میں لڑوایا گیا۔ کیسے یہاں کے سیاسی اور معاشی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے بعد یہاں کی فکری وحدت پر حملے کیے گئے۔ یہاں اس بات کی نشان دہی ضروری ہے کہ اس ارض پاک کے سرکاری اکابرین بھی، اس معاملے میں برابر کے قصوروار ٹھہرتے ہیں جنہوں نے یہاں اس تعلیمی نظام کو برقرار رکھتے ہوئے فرنگی آقاؤں کے مشن کو جاری رکھا اور یہی وجہ ہے کہ آج تک ان کی نسلیں ہم پر حکومت کر رہی ہیں۔

واپس آتے ہیں یہاں موجود تقسیم در تقسیم کے محرکات پر بات کرنے کے کے بعد آخری بات ان نفرتوں کو مزید بھڑکانے والوں کے بارے میں بھی ہونی چاہیے۔ آخر کیوں عالمی امن کے لیے دنیا کے کسی بھی کونے میں جب بھی کوئی ”کاوش“ ہوتی ہے تو اس کا کھرا ہمارے ہی گھر سے نکلتا ہے۔ کیوں ہمارے ہاں موجود شدت پسندی کے نظریاتی ادارے بند نہیں ہو رہے۔ تو حٖضور جس ریاست میں غربت صرف حکومتی اعداد و شمار میں کم ہو اور غذائی قلت کا یہ عالم کہ قومی غذائی سروے کے مطابق مملکتِ خداداد میں صرف تین فی صد بچوں کو صحت کے کم سے کم معیار پر پورا اترنے والی خوراک میسر ہو، وہاں بارود اور درود میں فرق کرنا ممکن نہیں رہتا۔ مولا علی کا قول ہے کہ غربت تمام جرائم کی ماں ہے تو جناب رواداری کے درس کے ساتھ ساتھ، لوگوں کا روٹی پانی کا بنیادی مسئلہ جب تک حل نہیں ہو گا نفرتوں کے بیج توانا درخت بنتے رہیں گے۔ اور دنیا ان کے پھلوں سے ثمر مند ہوتی رہے گی۔

خدارا! زمیں پر خدا بننے کی بجائے، مخلوق خدا کے لیے آسانیاں پیدا کریں اور جنت کا ٹکٹ پکا سمجھیں۔ لیجیے ہوا قصہ تمام۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).