بجواب یونیورسٹیاں یا فحش کدے؟
حمزہ شریف کا مضمون۔ یونیورسٹیاں یا فحش کدے؟ ۔ ان کے مخلصانہ مگرغلط معلومات۔ نظریات پر مبنی خیالات کا پَرتو ہے۔ اس پر برہمی کے بجائے ان کی حتی المقدور درستی اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے
انہوں نے اپنے تجربہ کی بنیاد پر لکھا ہے کہ
۔ یونیورسٹی کے طلبہ میں دین سے بیزاری کا عنصر روز بروز سرطان کی طرح زور پکڑتا جا رہا ہے
ان کے اس بیان پر سوال اٹھتا ہے کہ واقعی ان کی بات درست ہے یا یہ ان کا وہم ہے۔ ساٹھ سال قبل بھی پنجاب یونیورسٹی کو بظاہر اس طرح کی باتوں کی بدولت طنزاً شادی کا دفتر کہا جاتا تھا اور اِسی یونیورسٹی سے بڑے بڑے جید اور دیندار علماء بھی نکلے۔ باوجود ان سے عقیدہ کے اختلاف کے ان کے لئے دل میں بڑی عزت ہے۔ اگر یہ بیزاری کاعنصر سرطان سے کامل مشابہت رکھتا ہے تو سرطان کی دیگر خصوصیات بھی اثرانداز ہوں گی ۔ یہ تو موت کی وارننگ ہی لگتی ہے اور دعا کا کیس ہے۔ لہذا ہاتھ اٹھائیں
موت آ بھی گئی ہو تو ٹل جائے گی
مضمون نگار خرابی کی ایک وجہ لکھتے ہیں کہ
۔ بارہ سالہ اعلیٰ ثانوی تعلیم میں خاکسار کو دینیات اور اخلاقیات کے نام پر جو کچھ پڑھایا اور سکھایا گیا، یونیورسٹی کا نظام تدریس اس کے بالکل متضاد ہے۔
۔ اورایک اوسط مطالعہ کرنے والا طالب علم جو کہ اعلیٰ ثانوی امتحانات پاس کرنے کے بعد یونیورسٹی میں آتا ہے اس کا دینی مطالعہ اول تو آٹے میں نمک کے برابر ہوتا ہے اور اکثریت کی دینی معلومات تک رسائی بھی شنیدہ ہی ہوتی ہے۔
ان کی بات درست ہے تو یونیورسٹی کے طلباء پر تو یہ لازم آتا ہے کہ وہ معلوماتِ شنیدہ کی حدود کو کراس کر کے ذاتی مشاہدہ کی حد میں داخل ہوں۔ پھر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کو سائینسی اصولوں کے مطابق ہی صداقت کی تلاش کرنا ہوگی اور اِسی جُہد سے تشکیک کا جواز جنم لیتا ہے۔
جبکہ دوسری صورتِ پند کے مطابق۔
مولانا خادم حسین رضوی مد ظلہ لاکھوں کے مجمع کے سامنے اپنے پُر معارف خطاب میں ایک نوجوان کا ذکر فرماتے ہیں جو بقول ان کے رسول اللہ ﷺ کی گاڑی کی بریکیں فیل ہونے پر (جس کو آپ ﷺ بنفسِ نفیس ڈرائیوفرما رہے ہوتے ہیں ) جس کے پیچھے لُڑھک جانے کا خطرہ تھا۔ اس کو لُڑھکنے سے بچانے کے لئے و ہ نوجوان دائیں بائیں کوئی اینٹ وغیرہ ڈھونڈنے لگتا ہے۔ اِسی کشمکش میں وہ مڑ کر دیکھتا ہے کہ چاروں کبار صحابہ رضوان اللہ علیھم (جو گاڑی میں ساتھ سوار تھے ) اپنے اپنے سر چاروں ٹائیروں کے نیچے دے کر لڑھکنے کی راہ میں رکاوٹ بن چکے ہیں۔ (لبیک یا رسول اللہ کے نعرے بلند ہوتے ہیں)
یہ بیان یو ٹیوب پر موجود ہے۔ اس بیان میں انہوں نے یہ پیغام اس نوجوان کی وساطت سے دیگرنوجوانانِ اُمت کو دیا کہ تم ادھر ادھر ڈھونڈتے رہتے ہو اور ثواب کا کام جنہوں نے کرنا ہوتا ہے وہ کر گزرتے ہیں لہذا اِدھر اُدھر نہیں دیکھنا۔ اس پیغام کے ذریعہ ہر مسلم نوجوان کے دل میں ایک حسرت کا جنم لینا قدرتی امر ہے کہ کاش میں بھی بغیر سوچے سمجھے اپنا سر ایک پہیے کے نیچے دے دیتا تو حبِ رسول ﷺ کا اظہار کر سکتا۔ دوسرے یہ کہ مستقبل میں موقع ملا تو اس کام میں سستی نہیں کی جائے گی۔ اس طرح کی تعلیم اگرچہ آٹے میں وزن کے لحاظ سے نمک کے برابر ہے لیکن ذائقے کے لحاظ سے ذرا سا زیادہ نمک بھی زہر بن جاتا ہے۔ اور یہ زہر ملک و ملت کے لئے خطرناک ترین ہے۔
مضمون نگا ر لکھتے ہیں
۔ یونیورسٹی کے طلبہ فلسفہ کا مطالعہ حقائق کی کھوج کے لئے نہیں بلکہ فحش اور من مانی سرگرمیوں کے لئے جواز ڈھونڈنے کو پڑھتے ہیں۔ کچھ مغرب زدہ حضرات نے تو اسلام کا بھی skeptical مطالعہ اس لیے کر رکھا ہے کہ اسلام میں مغالطے ڈھونڈ سکیں۔
ان کی یہ بدگمانی اور دوسروں کی نیت پر شک کا اظہار (بے شک درست بھی ہو) قرانی تعلیم کی سخت نافرمانی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ حجرات میں فرماتا ہے۔
اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچتے رہو، کیوں کہ بعض گمان تو گناہ ہیں۔
اس لئے یہ استغفار کا مقام ہے۔
پھر مضمون نگار لکھتے ہیں کہ۔
۔ جنسی بے راہ روی کے واقعات کی بڑھتی شرح کسی سے ڈھکی چھپی نہیں
ان کی اس بات کی بنیاد بھی حقائق سے اور فقہ سے لاعلمی ہے۔ اگر دو نوجوان اپنی مرضی سے میاں بیوی بننا چاہتے ہیں تو اسلام نہ صرف اس کی حمایت کرتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں واجب بھی ٹھہراتا ہے۔ جبکہ جنسی بے راہ روی ان کے نزدیک جو بھی ہے۔ یونیورسٹی سے باہر جنسی تشدّد جیسے گھناؤنے جرائم عام ہیں۔ بد قسمتی سے جن کے مرتکب اکثر صورتوں میں مغرب دشمن کہلانے والے علماء۔ دیگربزرگ اوراساتذہ وغیرہ ہوتے ہیں۔
مضمون نگار کا یہ کہنا کہ
۔ ملکی سالمیت کے خلاف لیٹریچر کا پرچار ہے۔ علاقائیت، صوبائیت، لسانیت اور فرقہ واریت سے لت پت لیٹریچر طلبہ کے ذہنوں میں وہ زہر گھول دیتا ہے جو ان کے دل و دماغ میں حب الوطنی کے مقدس جذبے کو قتل کر ڈالتا ہے۔
میاں۔ اب اگر اس دور میں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی آپ کے منشاء مبارک کے مطابق آزادی اظہار پر پابندی لگا دی جائے تو زندگی کا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔ آپ نے قرآن مجید میں پڑھا ہو گاکہ۔ لا اِکراہ فی الدین۔ یعنی دین میں کوئی جبر نہیں۔ پھر دنیا وی معاملات میں تو یہ آزادی اور زیادہ ہونی چاہیے۔ حب الوطنی صرف ان خیالی باتوں پر موقوف نہیں۔ بیرون ملک پاکستان نژاد لوگوں کے دِل دن رات پاکستان کے حالات پر گھلتے رہتے ہیں اور ان کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ پاکستان بھی دوسرے ملکوں کی طرح ترقی کرے۔ مذکورہ کتاب۔ میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا۔ آن لائین موجود ہے۔ ہر شخص ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھ سکتا ہے۔ لیکن اس کے مطالعہ سے تو مضمون نگار کے موقف کی اُلٹا تردید ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ۔ مغرب میں رہنے والے کروڑوں مسلمان اپنے دین یعنی دینِ اسلام سے بہت مخلص ہیں اور اسلام پر مسلمان ممالک کی نسبت بہتر عمل پیرا بھی ہیں۔ البتہ اس فرق کے ساتھ کہ عمل پیرا ہونے کے لئے ان پرکوئی جبر نہیں۔ وہ یقین محکم پر قائم ہیں کہ اسلام سچا مذہب ہے اور جو دقیانوسی تشریح اسلام کی آج کا عالم دین کہلانے والا کرتا ہے یہ تشریح حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی بہر حال نہیں ہے۔ اسی طرح اپنے اپنے وطن خواہ ترکی۔ پاکستان ہو یا مراکش۔ اس سے کامل محبت کرتے ہیں اور جس جس ملک میں مقیم ہیں اس کے وفادار بھی ہیں۔ ممکن ہے یہ وفادار کا لفظ کسی کو کھٹکے۔ لہذا مولانا مودودی صاحب کی کتاب۔ دورخی وفاداری۔ کا مطالعہ کرلیں۔ اگر بھارت اور پاکستان دونوں کی وفاداری بیک وقت ممکن ہے تو کینیڈا اور پاکستان کی بھی ممکن ہے۔
انہوں نے شعر جڑا ہے کہ
سورج ہمیں ہر شام یہ درس دیتا ہے
مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے
مضمون نگار کا استنباط ہر گز درست نہیں۔ شعرکا صحیح مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ مغرب کی طرف جاؤ اور اگر سورج ہو گے تو اگلے دن طلوع ہو جاؤگے۔ اگر پٹاخے ہوگے تو ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاؤ گے۔ اور سچا مسلمان پٹاخہ نہیں ہوتا۔
- سائرن یا نیرو کی بانسری - 28/02/2024
- تبصرہ بر مضمون نصرت جاوید صاحب - 03/11/2023
- عمران ریاض خاں کی بازیابی باعث مسرت - 05/10/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).