اندر اور باہر کا زاہد!


میرے اندر کا ”زاہد“ بھی آج باہروالے ”زاہد“ کی قید میں تھا۔ اورکئی سالوں کے جبراور استبداد سے آزادی چاہتاتھا۔ اپنی اصل سے ملنا چاہتاتھا۔

آنِ واحد میں اپنے سنگل توڑ کر، جعلی تصنع اور بناوٹ کا ماسک اتارکر، اپنے خول سے باہر نکل کر، اپنی اندر اور باہر کی فریکون سی کو ملاکر، دل اور دماغ، سوچ اور خیالات سب کو یکجا کرنا چاہتاتھا۔ ایک ہونا چاہتا تھا۔ اپنے آپ سے ملنا چاہتا تھا۔ اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں سے محسوس کرنا چاہتا تھا۔ اپنے لمس سے کائنات کا لمس محسوس کرنا چاہتا تھا۔ اپنی سانسوں کی باس اور بدبو کو نکال کر، خوشبو اور ”مہک“ کو اپنے اندر سمانا چاہتا تھا۔

اپنی اچھائی اور پارسائی کے تمام ”لات“ اور ”منات“ پاش پاش کر کے، ان کی کنکروں سے محبت کا، جذبات کا، احساسات کا، ایک نیا محل تعمیر کرنا چاہتا تھا۔ اس میں پل بھر کے لیے سہی۔ طوفان میں سہی، اس میں رہنا چاہتا تھا۔ اس کے ساتھ اپنے ساتھ، رہنا چاہتا تھا۔ کئی دہائیوں کی بدلذتّیوں اور محرومیوں کو روند کر ”عود و عنبر کی مہک“ کی لذت سے آشنا ہونا چاہتاتھا۔ اپنے اندر اور باہر کے طوفان کو یکجا کرنا چاہتا تھا۔ اپنی تکمیل چاہتا تھا۔ ذات کی تکمیل چاہتا تھا۔ کائنات کی تسخیرچاہتا تھا، لمحہ بھر میں پوری کائنات کو اپنے سینے میں سمولینا چاہتاتھا۔ میں اور میری کائنات۔ !

مقبرہ جہانگیرکی اس تاریک کوٹھری میں جہاں آندھی اورطوفان نے تاریکی میں اضافہ کردیاتھا۔ میں خود سے ملاقات کرنا چاہتاتھا۔ ہوا کے دوش پر اڑ آنے والے کاغذوں، پلاسٹک کے تھیلوں اورکھانے کے بعد پھینکے جانے والے ڈبوں کی مانند، جو اس لال آندھی کے ساتھ، ایک لان سے ہوتے ہوئے، دوسرے میں اور پھر دیواروں سے ٹکراتے، درختوں کی ٹہنیوں کو، ”جپھے“ مارتے ہوئے، ہوا کے دوش پر، ادھراُدھر گھوم کر، آزاد فضاؤں کا حصہ بن چکے تھے۔ میں بھی اس آندھی کے زورپر اُڑنا چاہتا تھا۔ اپنی زنجیریں توڑکر، گردن، پاؤں اور ہاتھ، نظر سب کو آزاد کرکے، اپنی مرضی سے سانس لینا چاہتاتھا۔ میں ”زاہد“ سے نجات چاہتاتھا۔

میں آنِ واحد میں، پانچ مرلے کا مکان، لنڈے کے کپڑے، پلاسٹک کے جوتے، بس کا سفر، چھ سال کی چھبیس ملاقاتیں، ان ملاقاتوں کے بعد کی بے قرار راتیں، دھند کے سفر، پیدل داتاصاحب کے مزارکی حاضری، سکول اور کالج سے غیرحاضری کے جرمانے، گھنٹوں باغ جناح، عجائب گھر، کالج کے لان، لائبریریاں، مقبرہ نورجہاں کا کتبہ، جہانگیری دروازہ، شاہی قلعہ کے سامنے کی بارہ دری، رقعے، کاپیوں میں لکھی جانے والی نظمیں، پل پل کی دوری پر ہجر و فراق کے قصے، سب ایک جست میں طے کرنا چاہتاتھا۔

اس طوفان کے بیچ، لال آندھی کے درمیان، جہاں بارش کے تھپیڑوں سے کچھ ”لالیاں، ممولے اور چڑیاں“ بے بسی سے کونوں میں گھسی ہوئی تھیں۔ ایک ساتھ بیٹھی بلی اور دوسرے کونے میں دبکے ہوئے ”کتورے“ کو ان کے گوشت سے شکم کی آگ بجھانے کی کوئی ہمت اور طمع نہ تھا۔ اوروہ سب سردی، ہوا کی منہ زوری، اپنی جسمانی کمزوری کی بدولت، دبکے ہوئے کبھی کبھی آنکھیں کھول کر ایسے ہماری طرف دیکھتے تھے، جیسے ان کو ساری سمجھ ہو۔ ! ویسے بھی جانوروں کو طوفان اور خطرے کی اطلاع انسان سے بہت پہلے ہو جاتی ہے۔ شایدوہ باہر اور اندروالے طوفان کا مقابلہ اور موازنہ کررہے تھے۔ اور معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھ کر مجھے اُکسا رہے تھے۔ میر ے طوفان کو راستہ دکھا رہے تھے منزل آشنا کررہے تھے۔

مجھے ایسے محسوس ہورہا تھا کہ میرے اردگرد سب چرند اور پرند اور نباتا ت اور جمادات مجھے کوس رہے ہوں۔ مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے ہوں۔ کہ جیسے اس آندھی اورطوفان کا ذمہ دار صرف اور صرف میں ہوں۔ اور ان سب کی تکلیف کا واحد باعث بھی میں ہی ہوں۔ سالوں کا سفرمیں نے آنِ واحد میں طے کیا اور پھر بارش اورطوفان اور لال آندھی نے میرے اندر بھی طوفان برپا کردیا تھا۔ ایک ہیجان، ایک طوفان، میری سانسوں میں، میری خواہشوں میں، میری رگ رگ اور ہر مسام میں، میرے جسم وجان میں، ایک طوفان آگیاتھا۔

میں باعثِ طوفان تھا اور محبت کے بازار میں ”مندہ“ میری ذات کی بدولت تھا۔ میرے جسم و جان اور میرے خیالات و سرد روی شاید کسی کے جذبات کی ارزانی کی وجہ بنی تھی۔ مگرایک اضطراب، ایک آگ میرے اندر باہرکو لال کررہی تھی۔ طوفان کو مزید طوفان زدہ کررہی تھی۔ میرے اندر باہرکو ایک کر رہی تھی۔ طوفان۔ چارسوطوفان۔ !

نہ جانے کب تاریکی، مزید تاریکی میں بدل گئی۔ آندھی کب مزیدتیز ہوگئی۔ طوفان کب مزید لال ہوگیا اور بارش نہ جانے کب آسمان کی کوکھ پھاڑ کر زمین میں سوراخ کرنے لگی۔ بس اتنا یاد ہے کہ آسمانی بجلی کی کڑک اور تیز لہر کے ساتھ، ایک بجلی سی میرے سینے کے ساتھ لگ گئی۔ اور مجھے آسمانی بجلی سے زیادہ زور کا جھٹکا لگا۔ اوروہ تیز سنہری بجلی کا کوندا، میرے جسم میں جیسے سرایت کرگیا۔ بجلی میرے جسم میں بھر گئی۔ میری رگ رگ میں سما گئی۔

پھر کب تک بارش برسی۔ ؟ کب تک طوفان جاری رہا۔ ؟ کتنے درخت جڑسے اکھڑکر کدھراورکتنی دورگرے۔ ؟ کتنے چرند اور پرنداس طوفان کی نظرہوئے۔ ؟ اس بارش میں کب تک کون کہاں تک بہہ گیا۔ ؟ اور کتنی دور اس بہاؤ کے زور پر نکل گیا۔ ؟ یہ مجھے معلوم نہیں۔

چالیس سال بیت جانے کے باوجود، مجھے لمحہ لمحہ یاد ہے، گیلے بال، جسم سے چپکے ہوئے کپڑے، کمرکے گرد لپٹے بال، کمر کا تل، دوجسموں کی یکجا ہوتی ہوئی بجلی، اس بجلی سے جاری ہونے والا، لاکھوں وولٹ کا کرنٹ، اوراس کرنٹ سے گیلے جسم کے ذریعہ بارش کے پانی اور زمین میں جذب ہونے کے بعد جوShockہم دونوں کو لگا، اس سے میرے تمام ہوش کھو گئے۔ جسم سے جیسے جان نکل گئی ہو۔ ایسے جیسے ہم زندہ ہوکر زندگی سے دورہوں۔ یوں محسوس ہورہا تھاجیسے ہم دونوں کونے میں موجود چڑیوں کے درمیان بیٹھ کرخود کوایک دوسرے سے لپٹے ہوئے دیکھ رہے ہوں۔

اور پھر نجانے کب تک اس کیفیت میں مدہوش، گھڑی کی سوئیوں سے آزاد ایک دوسرے پر پڑے رہے۔ جب ہوش ٹھکانے اور جان دوبارہ یک جان ہوئی، تو دیکھا کہ ”طوفان اور بارش سے سب جل تھل ہوچکا تھا۔ سب بھیگ چکاتھا۔ میرا تن من سب گیلا ہوچکا تھا۔ میں مکمل طورپراس طوفان کی نذرہوچکاتھا۔ میں اپنے آپ کواس طوفان کے سپردکرچکاتھا۔ اپنا سب کچھ طوفان کے حوالے کرچکاتھا۔ مکمل طورپر۔

میرے اندر کے طوفان نے مجھے باہر کے طوفان سے ماورا کر دیا تھا۔ میرے اندر اور باہر کا طوفان ایک ہوچکا تھا۔ میرا سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔ احساسات، محسوسات، جذبات، خیالات، سب کچھ اس طوفان کی نذر ہوچکا تھا۔ بس اگر کچھ بچاتھا، تو وہ۔ طوفان۔ لال طوفان۔ گرم طوفان۔ شدید سردی اور ٹھنڈی ہواؤں کے درمیان۔ اس کچے پکے فرش کی دیوار کے ساتھ لگا ہوا، ایک طوفان۔ ! جان لیوا۔ مگر جان دان کردینے والا ایک طوفان۔ ! لمس کا طوفان۔

دھڑکنوں کا طوفان۔ ! تپتے گالوں کا طوفان۔ ! بازؤں کی گرفت میں قید، بیرونی طوفان سے بہت زیادہ ہولناک اور خوفناک طوفان۔ ! مچلتے ہوئے جذبات اور اچھلتے ہوئے، دہکتے ہوئے انگارہ خیالات کا طوفان۔ ! جسم کے روئیں روئیں سے لپٹا ہوا۔ ! جسم کا طوفان۔ ! ابدان کے مساموں اور شریانوں کا طوفان۔ ! ہوا کے دوش پر سفرکرتے ہوئے، پانی کے نوک دار قطروں کے نشتروں سے زخمی ہونے والے جسم اور پھر ان کے درمیان سے راستہ بناتی ہوئی بے بس بوندوں کا ہیجان۔ ! وہ طوفان۔ ! نہ ختم ہونے والے طوفان۔ !

میں اس طوفان میں رہنا چاہتاتھا۔ اس کا حصہ بن کے رہنا چاہتاتھا۔ اس بارش اور یخ ہواکی گرمی سے کبھی چھٹکارانہیں چاہتا تھا۔ اس گرمی کو، اس بجلی کو، اس بارش کو، ہمیشہ کے لیے اپنے جسم اور روح کا حصہ بنانا چاہتاتھا۔ اس میں ڈوب جانا چاہتاتھا۔ مرجانا چاہتاتھا۔ اس منظر میں ہمیشہ کے لیے اترجاناچاہتاتھا۔ مستقل رہنا چاہتا تھا۔ اس منظر کا حصہ بن کر امر ہونا چاہتا تھا۔ میرے تمام سنگل ٹوٹ چکے تھے۔ میں آزاد ہوچکا تھا۔

ان سنگلوں اور بیڑیوں سے ان نادیدہ ہتھکڑیوں سے آزادی حاصل کرچکا تھا۔ بغاوت کرچکا تھا۔ رسوم و رواج اور خیالات سے سالہاسال کے اپنے خود ساختہ اطوار سے آزاد۔ میں۔ ا پنی ذات میں مکمل اور خود مختار۔ زندگی میں پہلی بار۔ میرے اندر اورباہرکا زاہد ایک ہوچکے تھے۔ وہ میرے سینے سے چپکی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں بند اورسر، ایسے میری چھاتی پہ دھرا تھا، جیسے لوہے کی کوئی چھوٹی سی چیز طاقتور مقناطیس کے درمیان میں چپک جائے۔ ہمیشہ کے لیے، ہمیشہ تک۔ کبھی بھی جدا نہ ہونے کے لیے۔ اس کا حصہ بن جائے۔ اس جسم کا ایک جزولاینفک بن جائے۔ جسم اور جسم کا جسم ہمیشہ کے لیے۔ !
کتاب حاصل لاحاصل سے اقتباس۔

لیاقت علی ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

لیاقت علی ملک

لیاقت علی ملک ۔۔۔ داروغہ ہے۔ خود ہی عدالت لگاتا ہے، خود ہی فیصلہ سناتا ہے اور معاف نہیں کرتا۔۔۔ بس ایک دبدھا ہے۔۔۔وہ سزا بھی خود ہی کاٹتا ہے ۔۔ ۔۔کیونکہ یہ عدالت۔۔۔ اس کے اپنے اندر ہر وقت لگی رہتی ہے۔۔۔۔

liaqat-ali-malik has 12 posts and counting.See all posts by liaqat-ali-malik