جون ایلیا: فیڈرل بی ایریا کراچی کا سب سے بڑا شاعر؟


میں اور جون بھائی فجر کی اذان تک باتیں کرتے رہے۔ میں نے اُن سے پوچھا کیا وہ خدا کے منکر ہیں؟ ”یہ سوال تم نے کیوں کیا؟ “ میں نے اُن کے ایک شعر کا حوالہ دیا: اے خدا (جو کہیں نہیں موجود) ، کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں۔ جون بھائی نے مسکرا کر کہا کہ بہرحال اس شعر سے تم مجھے دہریہ ثابت نہیں کر سکتے۔ ”خدا کے ’وجود‘ کا اقرار تو کفر ہے، کیوں کہ وجود کسی طرف یا سمت میں پایا جاتا ہے، جب کہ خدا تو ہر سمت میں ہے، یعنی سمتوں سے آزاد ہے۔ “ پھر انہوں نے قران کی یہ آیت پڑھی وﷲ المشرق و المغرب فاینما تولوا فثم وجہ اللہ ان اللہ واسع علیم (جس طرف بھی تم رُخ کرو گے، اسی طرف اللہ کا رُخ ہے ) ۔

کچھ دیر بعد جون بھائی کا موضوع سخن تھا ان کی حد سے بڑھی ہوئی حسّاس طبیعت کے ان کی عشقیہ زندگی پر اثرات۔ ایک واقعہ سنیے، امروہہ میں جون بھائی کا تقریباً ہر روز اپنی منگیتر کے ہاں جانا ہوتا تھا کہ اُس کی والدہ جون بھائی کی شاگرد تھیں۔ ایک دن جون بھائی اُس کے گھر گئے تو معلوم ہوا کہ منگیتر صاحبہ سو رہی ہے۔ فرماتے ہیں۔ ”مجھے انتہائی صدمہ ہوا، مجھے لگا کہ منگنی کے بعد میری اہمیت میں کمی آئی ہے، مجھے روزمرہ سمجھا جا رہا ہے، یہ میرے عشق کی توہین تھی، سو میں نے وہ منگنی توڑ دی، وہ تعلق یک سر ختم کر دیا۔ بلا شبہ اُس ایک واقعہ نے میری پوری زندگی کا رُخ موڑ دیا۔ “ غالباً، جون بھائی کی نظم تعظیمِ محبت اسی واقعہ کا عکس ہے:

خوشا یہ طرز تعظیم محبت، یہ تعظیم محبت ہو رہی ہے
غم فرقت کا شکوہ کرنے والی، مری موجودگی میں سو رہی ہے

جون بھائی نے ایسا ہی ایک اورواقعہ بھی سنایا۔ ایک لڑکی جون بھائی کو پسند آئی اور کراچی کے ایک معروف ریستوران میں دونوں اکٹھے ہوئے۔ لڑکی نے چائے بناتے ہوئے پوچھا آپ کتنی چینی لیں گے۔ جون بھائی نے کہا ڈیڑھ چمچ۔ کچھ دن بعد دونوں پھر اسی ریستوران میں ملے، اور لڑکی نے چائے بناتے ہوئے پھر جون بھائی سے پوچھا آپ کتنی چینی لیں گے۔ بقول جون بھائی ”اس کے سوال پر میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ اپنے محبوب کے بارے میں ایسی بنیادی باتیں فراموش کر دینا میرے تصورِ عشق کی نفی تھی۔ وہ اُس لڑکی سے میری آخری ملاقات تھی۔ “ جون بھائی سے پہلی ملاقات میں اُن کے بارے میں نے جو رائے قائم کی وہ پھر کبھی تبدیل نہ ہو سکی۔

اگلے ہی روز میں نے ایک محفل کا اہتمام کیا۔ میں دوستوں سے اپنی۔ ’دریافت‘ کی داد لینا چاہتا تھا، تصدیق کرنا چاہتا تھا کیا جون ایلیا واقعی ساحر ہے یا میں یونہی مسحور ہو گیا تھا۔ وہ شام میں کبھی نہیں بھلا سکا۔ جون بھائی کے موضوعات متنوع تھے، تاریخ، تہذیب، مذہب، لسانیات، اور ان مضامین پہ ان کی گرفت حیرت انگیز تھی، اکثر مصدقہ اور مروجہ ’حقائق‘ پہ ان کا نکتہء نظر مختلف تھا۔ شغلِ بُت شکنی کے بعد جون بھائی نے شاعری کا دور آغاز کیا۔ مجلس پہ ایک حالت طاری ہو گئی۔

کچھ دیر بعد یک دم جون بھائی رکے اور انہوں نے اعلان کیا کہ اب وہ اپنی طویل رزمیہ نظم ’راموز‘ کے چند کینٹو سنائیں گے۔ محفل میں ’ارشاد، ارشاد‘ کا شور اٹھا۔ جون بھائی نے کہا لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ انہیں ایک اوڑھنی فراہم کی جائے۔ وہ کیوں، میں نے ان سے پوچھا۔ جون بھائی کا جواب دل چسپ تھا ”اس لئے کہ اس وقت میں نے جو لباس پہن رکھا ہے اس کا تعلق انسانی تہذیب کے ایک خاص دور سے ہے، جب کہ یہ نظم گزشتہ و فردا، ہر زمانے کا احاطہ کر رہی ہے، لہذا مجھے ایک ان سلا کپڑا درکار ہے جس سے میں خود کو ڈھانپ لوں۔ “ جون بھائی کو ایک کمبل پیش کیا گیا جو انہوں نے بہ خوشی اوڑھ لیا اور کمرے کے ایک کونے میں کھڑے ہو کر ’الواح‘ پڑھنے لگے۔ اُس شام ہماری قسمت میں تحیر لکھ دیا گیا تھا۔

آخر جون بھائی تھک کر اسی کونے میں گر سے گئے اور بڑی دیر خاموش لیٹے رہے۔ شاعری سننا بھی ایک تخلیقی عمل ہے، سو ہم سب بھی نڈھال سے تھے۔ کچھ دیر بعد جون بھائی اٹھ بیٹھے اور اگلا ایک گھنٹہ فارسی شعراء، بالخصوص آدم الشعراء رودکی کی غزل کی تکنیک پہ گفتگو کرتے رہے۔

جون ایلیا کی شخصیت کا تانا بانا تضادات سے بُنا گیا تھا، ایک ایسا عالم جو اظہار مسرت کے لئے کسی بھی وقت، کہیں بھی رقص آغاز کر سکتا تھا، ایک ایسا تہذیبی آدمی جو گزشتہ صدیوں میں زندہ تھا مگر آئین سٹائن کے نظریہء اضافیت پہ پہروں گفت گو کر سکتا تھا، ایک ایسا شخص جو جاذب نظر آنے کی شدید خواہش رکھتا تھا لیکن اپنے بالوں میں کنگھا پھیرنے کا روادار نہ تھا، ایک ایسا اثنا عشری جو دیو بند کا فارغ التحصیل تھا، ایک ایسا مجذوب جس کا دماغ کسی تیز دھار آ لہ کی مانند تھا۔

ایک بار مرکز ساداتِ امروہہ کراچی میں ایک فرضی عدالت قائم کی گئی جس میں جون بھائی کے ادبی جرائم کی پاداش میں مقدمہ چلایا گیا۔ وکلائے صفائی کے طور پہ پنجاب سے احمد عقیل روبی اور مجھے دعوت دی گئی، روبی صاحب کو ان کے ادبی مرتبہ کی وجہ سے، اور مجھے جون بھائی سے تعلق خاطر کی بنا پر۔ اُس دل چسپ تقریب اور اس کے بعد میرے ایک ہفتہ جون بھائی کا مہمان رہنے کی کہانی پھر کبھی سہی۔

صحافی ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ کسی بھی معروف و مرغوب شخص سے ملاقات کر سکتے ہیں، سو میں نے اس سہولت سے عمر بھر بھرپور فائدہ اٹھایا اور جس سے ملنا چاہا، ملا۔ اس طرح بہت سے ایسے لوگوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا جو مختلف وجوہ کے باعث انتہائی دل چسپ اور متاثر کن تھے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ میں نے زندگی بھر جون بھائی سے زیادہ محبوبیت کسی شخص میں نہیں دیکھی۔

مقام غزنویہ منزل، وقت رات کے تین بجے، کردار برادرِ بزرگ سید جنید غزنوی، یار دیرینہ مرزا رضی الرحمٰن، جون ایلیا اور میں۔ گفت گو چل رہی تھی، کبھی ایک موضوع کبھی دوسرا، اسی دوران جون بھائی نے اپنے آنے والے مجموعے کا نام بتایا۔ میں نے جھٹ سے کہا ’یہ برا نام ہے۔ ‘ جون بھائی میرے لہجے کی قطعیت سے بہت سٹپٹائے۔ انہوں نے اس نام کے دفاع میں کچھ دلائل بھی دیے مگرہم تینوں میں سے کسی کو قائل نہ کر سکے۔ جون بھائی نے کہا کہ وہ اپنے حلقہ میں سب سے مشورہ کر چکے ہیں اور سب کو یہ نام پسند ہے، آخر اس میں کیا خرابی ہے۔

میں نے کہا جون بھائی اس مغلق فارسی ترکیب سے علمیت کی بو آ رہی ہے، متاثر کرنے کی خواہش نظر آ رہی ہے، ’شاید‘ جیسی بے ساختگی نہیں ہے۔ بھائی صاحب کا بھی یہ ہی خیال تھا کہ ’شاید‘ کے بعد مفرد نام ہی ہونا چاہیے، نہ کہ اضافتوں سے لدی کوئی فارسی ترکیب۔ جون بھائی نے ہتھیار ڈال دیے۔ اب نئے نام کی تلاش شروع ہوئی۔ بہت سے نام زیرِ غور آئے مگر کسی پر اتفاقِ رائے نہ ہو سکا۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھرہم میں سے کسی نے کہا ’یعنی‘ کے بارے کیا خیال ہے؟ جون بھائی نے لفظ ’یعنی‘ کو مختلف لہجوں اورمعنیٰ میں بولنا شروع کر دیا۔ کافی دیر تک مختلف جہتوں سے ’یعنی‘ کا جائزہ لینے کے بعد ہم سب متفق ہو گئے کہ جون بھائی کے دوسرے مجموعے کا نام ’یعنی‘ ہو گا۔

کم از کم درجن بار جون بھائی نے مجھے ’یعنی‘ نام کی کہانی لکھنے کو کہا۔ وہ اس تحریر کو مجموعے میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ میں یہ تحریر نہیں لکھ سکا۔ کیوں نہیں لکھ سکا؟ میرے پاس اس کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔

جون بھائی کی ہدایت پر شکیل عادل زادہ نے یعنی کے پیش لفظ میں میرا شکریہ ادا کیا، جون بھائی نے میری کھینچی ہوئی اپنی ایک تصویر کو ’یعنی‘ کے سرورق کے لئے استعمال کیا۔ یہ ان کی محبت کے اظہار کا طریقہ تھا۔

شاید میں بے ربط ہو رہا ہوں۔ اس سے خیال آیا کہ جب جون بھائی کو احساس ہوتا کہ وہ بے ربط ہو رہے ہیں تو کہا کرتے تھے ’جانی، میری گفت گو میں ایک داخلی ربط موجود ہے۔ ‘ آج احساس ہوا کہ وہ ٹھیک ہی کہا کرتے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3