جون ایلیا: فیڈرل بی ایریا کراچی کا سب سے بڑا شاعر؟


”جون بھائی، میں آپ کی وفات پر جو کالم لکھوں گا، اُس میں کیا لکھوں، کوئی فرمائش؟ “ میرے ناگہانی سوال پر جون بھائی مسکرائے، پھر چہرے پہ ہزار سنجیدگی طاری کرتے ہوئے گویا ہوئے ”مری شاعرانہ صلاحیت کے بارے حد درجہ مبالغہ سے کام لینا اور اہلِ دنیا کو بہ ہر صورت قائل کرنا کہ تمھارے جون بھائی فیڈرل بی ایریا کراچی کے سب سے بڑے اردو شاعر تھے۔ “ میں نے صاف انکار کر دیا اور جون بھائی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسے بے سر و پا اور بلند و بانگ دعویٰ سے بہ طور نقاد میری ساکھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاک میں مل جائے گی۔

میرے جواب نے بظاہر ان کا رُوآں رُوآں اداس کر دیا، ذرا توقف کے بعد جون بھائی یک دم پلنگ سے اُٹھے اور میرے سامنے زمین پہ دوزانو اور دست بستہ بیٹھ کر گڑگڑانے لگے ”حماد، تم اپنے جون بھائی کو کم از کم فیڈرل بی ایریا کے ’اہم‘ شعراء میں سے ایک اہم شاعر تو ثابت کر سکتے ہو۔ “ میں نے انتہائی فیاضی سے ہاں کر دی۔

جون بھائی نے ایک خط میں اپنے جنازے کی نسبت سے مجھے کئی ہدایات لکھ بھیجیں۔ ”میں سامی النسل ہوں، سو اب یہ تمھاری ذمہ داری ہے کہ میرے جنازے کو میری عظیم نسلی روایات کا مظہر بناؤ، جنازے کے ہم راہ لاکھوں سوگواران ہونے چاہیے ں جو با آوازِ بلند گریہ کریں، سینہ کوبی کریں اور اپنی مُٹھیاں خاک سے بھر بھر کے آسمان کی طرف اچھالیں“۔ بعد میں ایک دن فون پہ بات ہوئی تو میں نے اُن سے وعدہ کیا کہ اُن کے جنازے سے متعلق اُن کی وصیت کو من و عن پورا کیا جائے گا۔

جون بھائی فوت ہوئے تو میں اُن کے جنازے میں بھی شریک نہ ہو سکا۔ میں نے اپنا دوسرا وعدہ بھی توڑ دیا، میں نے کبھی انہیں کراچی کے کسی محلہ کے اہم ترین شعراء کی فہرست میں شامل نہیں کیا۔

جون بھائی کی وفات پہ کچھ لکھنا میرے لئے ایک مشکل کام ہے۔ یوں تو میں نے کئی تعزیتی تحریریں لکھیں لیکن اپنے معشوق کی موت پہ لکھنے کا یہ میرا پہلا تجربہ ہے۔ میں نہیں جانتا مجھے کیا کہنا چاہیے۔ یہاں اُن کی شاعری کے محاسن یا اُن کی نثر کی ندرت کا تذکرہ کرنا میرے نزدیک یک سر بے ہودگی ہو گی، یا شاید ایسا نہیں ہے؟ مجھے نہیں معلوم بات کہاں سے شروع کرنا چاہیے۔

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

یہ جون ایلیا کا پہلا شعر تھا جو میں نے اسکول کے دنوں میں کہیں سُنا۔ مجھے نہیں معلوم تھا یہ کس کا شعر ہے۔ لگ بھگ ایک دہائی بعد میں نے جون ایلیا کو پہلی بار ایک ٹی وی مشاعرے میں دیکھا جس میں وہ اپنا معروف دوغزلہ پڑھ رہے تھے (مرا اک مشورہ ہے التجا نئیں، تو مرے پاس سے اس وقت جا نئیں ) اُن کے شعر کا لہجہ منفرد تھا، اُن کی پڑھت کا انداز سب سے جُدا تھا، اور پھر اُن کی راک سٹار لُکس۔ مجھے جون ایلیا ایک بھرپور پیکج لگے، ایک پر کشش پیکج۔

میں نے اُن کی شاعری ڈھونڈنا شروع کی تو اندازہ ہوا کہ لاہور کے اکثر کتب فروش ان کے نام سے ہی آشنا نہیں۔ کراچی میں ایک دوست سے رابطہ قائم کیا اور اسے جون ایلیا نامی شاعر کے سب دیوان ڈھونڈنے کی ذمہ داری سونپی۔ کچھ دن بعد اس دوست کا فون آیا کہ اس نام کے شاعر کا کو ئی مجموعہ کلام بازار میں دستیاب نہیں ہے، اس لئے نہیں کہ آؤٹ آف پرنٹ ہے، اس لئے کہ ان صاحب کا کوئی دیوان سرے سے کبھی چھپا ہی نہیں۔

1990 ء میں جنگ اخبار کے پچھلے صفحے پر میں نے ایک چھوٹی سی خبر پڑھی ’‘ جون ایلیا کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’شاید‘ چھپ کر مارکیٹ میں آ گیا۔ ”چند گھنٹوں بعد ’شاید‘ میرے ہاتھوں میں تھا، اور پھر کچھ ہفتے میرے ہاتھوں میں ہی رہا اور اس دوران میں بھی مسلسل ایک حالت میں رہا۔ جون میری توقع سے بڑھ کر ’جون لیوا‘ تھے۔ شاعری تو شاعری، ان کی نثر کے سحرنے مجھے دبوچ لیا، علمی تبحر اور بے ساختگی کی ایسی گنگا جمنا میں وہ میرا پہلا اشنان تھا۔

اپنی شاعری اور نثر کے آئینے میں جون ایلیا کسی سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی قدیم داستان کا کوئی ناقابلِ یقین کردار لگتا ہے، جو یہ ہوس رکھتا ہے کہ اسے تپ دق کا مرض لاحق ہو جائے، وہ خون تھوکے اور جوانی میں مر جائے، کہ اس کے نزدیک یہ سب ایک مسلمہ انقلابی کی نشانیاں ہیں، ایک ایسا عاشق جو معشوق کی یک بارگی آمد پہ اپنے منہ کا نوالا یک دم نگل جائے کیوں کہ محبوب کے سامنے کھانا چبانے کا عمل اس کے نزدیک ایک فحش اور غیر جمالیاتی حرکت ہے۔ اور پھر یہی شخص جب فلسفے کے ادق مضامین پر گفت گو کرتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ اس کی بات دوزانو بیٹھ کر سُنی جائے۔ میں جب بھی شاید پڑھتا، خود سے سوال کرتا ’کیا جون ایلیا گوشت پوست کا ایک حقیقی انسان ہے‘؟

1993 ء کی بات ہے، ایک دن معروف شاعر شہزاد احمد کا فون آیا، انہوں نے باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ جون ایلیا لاہور آئے ہوئے ہیں اور اپنے قریبی رشتہ دار اداکار منور سعید کے ہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ میں نے بے قراری میں اِدھر اُدھر منور سعید کا فون نمبر پوچھنا شروع کیا، کچھ ہی دیر میں فون نمبرمیرے پاس تھا، میں نے فون ملایا، کسی خاتون نے اٹھایا، میں نے پوچھا جون ایلیا صاحب سے بات ہو سکتی ہے، اور کچھ ہی دیر میں جون صاحب لائن پہ تھے۔

ہمارے درمیان جو گفت گو ہوئی وہ میرے حافظہ میں کُھدی ہوئی ہے، میری گفت گو رسمی تھی ان کی بے تکلفانہ، میں نے پوچھا ’کل ملاقات کا کوئی وقت مل سکتا ہے؟ ‘ ان کا جواب تھا ’آج کیوں نہیں‘ ، میں نے ان کا ایک شعر پڑھا (حاصلِ کُن ہے یہ جہانِ خراب، یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں ) انہوں نے کہا ’آج سے یہ شعر میرا نہیں، تمھارا ہے‘ ۔ ایک گھنٹے بعد میں ان کی قیام گاہ کے باہر کھڑا تھا۔

میرا ذاتی تجربہ یہ رہا ہے کہ اپنے پسندیدہ فن کاروں، شاعروں، مغنیوں سے روبرو ملنا، ان سے گفت گو کرنا کوئی ’محفوظ‘ عمل نہیں ہے۔ اگر فاصلوں کا سراب درمیان سے ہٹ جائے تو ضروری نہیں کہ بڑے بڑے لوگ دیو قامت ہی نکلیں۔ کئی پسندیدہ شاعروں اور گویوں سے گفت گو کے دوران میرے لئے جماہیوں پہ قابو پانا ایک کٹھن مرحلہ رہا ہے۔ کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ جون ایلیا سے ملاقات میں چُھپے خطرات سے میں اچھی طرح آگاہ تھا۔

جون ایلیا جب میرے استقبال کے لئے گھر سے باہر نکلے تو وہ ننگے پاؤں تھے۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواباً میری پیشانی پہ بوسہ دیا۔ ”جون صاحب میں۔ “ ابھی میں نے فقرہ آغاز ہی کیا تھا کہ انہوں نے ٹوک دیا۔ ”مجھے جون بھائی کہو“۔

میں نے کہا جون بھائی میں آپ کا فین ہوں، جون بھائی نے کہا ’اور میں تمھارا فین ہوں‘ ۔ میں نے کہا میں آپ کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ ’کیا انٹرویو؟ تم تو مجھے بہت اچھی طرح جانتے ہو، ہر موضوع پر میرے خیالات جانتے ہو، خود ہی سوال لکھو، خود ہی جواب لکھو، اور دیکھنا یہ میرا بہترین انٹرویو ہو گا۔ ‘

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3