جون ایلیا: فیڈرل بی ایریا کراچی کا سب سے بڑا شاعر؟


 بطور شاعر جون بھائی کا کوئی اصرار نہیں تھا، لیکن جب اردو زبان کی بات ہوتی تو وہ کہا کرتے تھی۔ ’میں اردو زبان کا عالم نہیں ہوں، میں تو خود اردو ہوں، سر بہ سر اردو‘ ۔ اُن کا دعویٰ تھے کہ وہ اردوزبان کے ایسے لفظ کا مطلب بھی بتا سکتے ہیں جو انہوں نے پہلے کبھی نہ سنا ہو۔ مجھے جب کسی لفظ کی معنوی تہہ تک پہنچنا ہوتا میں جون بھائی سے پوچھتا تھا۔ ہماری ٹیلے فون پہ آخری بات بھی اسی سلسلہ میں ہوئی تھی۔ ’جون بھائی، حُسن اور جمال میں کیا فرق ہے۔

’ بنا توقف کے جون بھائی کا جواب تھا‘ حُسن تحیر ہے اور جمال جاذب ’۔ پھر دیر تک اس کی تشریح کرتے رہے۔ یہ معاملہ مجھ جیسے ادھ پڑھ تک محدود نہیں تھا، اردو زبان کے علماء بھی اس مقصد کے لئے جون بھائی سے رابط قائم کرتے رہتے تھے۔ اردو جون بھائی کا مسئلہ تھا، وہ گھنٹوں زبان کی صحت، اسے مقبول بنانے کے طریقے، اس کے ہجوں میں معقول تبدیلیوں کی نسبت سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ ایک روز مجھے جون بھائی کا دو صفحات پر مشتمل ایک خط ملا، پہلا صفحہ اردو الفاظ کے غلط ہجے لکھنے والے اہلِ زبان کی مدح میں تھا، جس کا ایک ایک لفظ قطعاً ناقابلِ اشاعت ہے، اور دوسرے صفحہ پہ اغلاط نامہ مرتب کیا گیا تھا۔ اردو زبان سے متعلق بحثیں جون بھائی کے لئے فقط علمی مسئلہ نہیں تھا، اردو جون بھائی کا جذباتی مسئلہ تھا۔

ناکام شادی جون بھائی کی زندگی کا ایک تلخ تر باب تھا۔ اس رشتہ کی ناکامی میں کس کا کتنا قصور تھا، یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ جون بھائی ایک مشکل آدمی تھے، انتہائی حسّاس، نہایت زود رنج۔ بہر حال، اپنی شادی کی ناکامی کے بہت سال بعد تک، بلکہ یوں کہیے کہ اپنے آخری دنوں تک جون بھائی اس موضوع پہ تلخ ہو جاتے تھے، نہ ان کا دکھ کم ہوا نہ غصہ۔ اپنے بچوں سے کئی سطح پر دوری جون بھائی کے لئے مسلسل کرب کا باعث رہی۔ ”میرا کوئی گھر نہیں ہے، ۔ “ رات کے پچھلے پہر، بھیگی آنکھوں کے ساتھ یہ جملہ وہ اکثر دہراتے تھے۔ ”غالب کا گھر تھا، اقبال کا گھر تھا، فیض کا گھر تھا، میرا کوئی گھر نہیں ہے، میں نے زندگی کو اُن سب سے زیادہ بھگتا ہے۔“۔

یہ سچ ہے کہ جون بھائی اپنے روز مرہ کے کام بھی آسانی سے نہیں کر پاتے تھے، ان کا خیال رکھنے کی ضرورت تھی، مگر ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہ تھا۔

محبت کچھ نہ تھی جُز بدحواسی
وہ بندِ قبا ہم سے کُھلا نئیں

غالباً اس شعر میں کسی حقیقی صورت حال کی طرف اشارہ ہے۔ ایک مرتبہ اپنی دوا کھانے کے جاں گسل مرحلے کے دوران جون بھائی کہنے لگے ”زندگی بھر میں دو کام نہیں سیکھ سکا، دوا کھانا اور بوسہ لینا، دوا کھاتے ہوئے ہر بار میرا دم نکلنے لگتا ہے، اور بوسہ لیتے ہوئے ہمیشہ حلیف کا سانس رکنے لگتا ہے۔ “

مگر دوسری طرف جون بھائی جب زمینی معاملات سے اوپر اٹھتے تھے تو ان کا دماغ جگ مگا اٹھتا تھا۔ ان کی یاداشت تو واقعی لاٹیں مارتی تھی۔

میں اکتوبر 2002 میں برطانیہ سے فلمسازی میں ایم اے کر کے واپس آ رہا تھا، دورانِ پرواز میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی پہلی ڈاکومنٹری فلم جون بھائی پر بناؤں گا۔ جون ایلیا جیسے دیو مالائی کردار پہ کیا عالی شان ڈاکومنٹری بنے گی، آنے والی نسلوں کے لئے یہ ’عجوبہ‘ ہمیشہ کے لئے فلم بندہو جائے گا، میں سارا رستہ یہی سوچتا رہا، گرمیِ نشاطِ تصور کا معنیٰ پہلی بار سمجھ آیا۔

میں یہ ڈاکومنٹری نہیں بنا سکا۔ میرے پاکستان آنے کے کچھ دن بعد جون بھائی فوت ہو گئے۔

جون بھائی کے پاس مجھ سے خفا رہنے کی کئی وجوہ تھیں۔ ”صحافت میں وقت برباد نہ کرو، کوئی سنجیدہ کام کرو، “ انہوں نے بارہا مجھے یہ تاکید کی۔ میں نے ہربار ان سے وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی مجھے کسی با معنیٰ کام میں مصروف پائیں گے۔ ”تمھارے غسل خانے میں لوٹے کی عدم موجودگی سے مجھے شدید صدمہ ہوا ہے، حماد، تم ایک تہذیب کے نگہبان ہو، ۔ “ جون بھائی واقعی اُس دن مجھ سے خفا لگ رہے تھے۔ میں نے ان سے پکا وعدہ کیاکہ جلد ہی ایک روایتی لوٹا میرے غسل خانے کی زینت بن جائے گا۔ میں یہ وعدہ بھی پورا نہیں کر سکا۔ میں نے ان سے ’یعنی‘ کے لئے چند ابتدائی سطریں لکھنے کا وعدہ بھی کئی بار کیا لیکن پورا نہیں کر سکا۔ جون بھائی سے ایک وعدہ میں نے اور کر رکھا تھا، وہ میں ضرور پورا کروں گا۔

”میں، سید حماد غزنوی، پوری ذمہ داری اور کامل سنجیدگی کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ سّید جون ایلیاحُسینی ولد علامہ سّید شفیق حسن ایلیا، فیڈرل بی ایریا کراچی کے اہم ترین شعرا میں شامل ہیں۔ “
جون بھائی، اب تو آپ خوش ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3