انسانیت پہ ظلم آخر کب تک


یہ 2003 کی بات ہے بھارت کے ضلع امرتسر کی تحصیل تارن تارن کے ایک چھوٹے سے گاؤں گاندھیوند کا ایک 19 سالہ نوجوان ملک کی سب سے بڑی پولیس فورس میں بھرتی ہوتا ہے۔ خاندان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے کیونکہ گھر کا سارا بوجھ یہ نوجوان سنبھالنے جا رہا ہوتا ہے۔ ملازمت پکی ہونے کے بعد نوجوان کی شادی کر دی جاتی ہے۔ شادی کو سات سال بیت جاتے ہیں نوجوان کے گھر میں اولاد نہیں ہوتی ان سات سالوں میں بڑی منتیں مرادیں کی جاتی ہیں۔ سات سال بعد قدرت مہربان ہوتی ہے اور نوجوان کو چاند سا بیٹا عطا کرتی ہے اس دوران وہ نوجوان ملازمت میں ترقی پا کے کانسٹیبل سے ہیڈ کانسٹیبل بن چکا ہوتا ہے اوپر سے بیٹے کی سات سال بعد پیدائش سونے پے سہاگا ہوجاتا ہے اس خوشی کے موقع پے سرکار اس نوجوان کو پورے ایک مہینے کی چھٹی عنایت کرتی ہے۔

نوجوان بڑا خوش ہوتا ہے، ہوتا بھی کیوں ناں؟ گاؤں جا رہا ہوتا ہے وہ بھی اتنے عرصے بعد اور پھر پورے ایک مہینے کے لیے، اس مہینے یعنی جنوری کی 13 تاریخ کو تو ”لوہڑی“ کا میلہ بھی ہوتا ہے۔ (لوہڑی پنجاب کا ایک روایتی میلہ ہے جسے ہر سال 13 جنوری کو منایا جاتا ہے جس میں سکھ، ہندو اور مسلمان سبھی شرکت کرتے ہیں ) ۔ اس نوجوان کے لیے یہ لوہڑی کا میلہ بہت خاص ہوتا ہے کیونکہ اس دفعہ گھر میں نیا مہمان آیا ہوتا ہے جس کی یہ پہلی لوہڑی ہوتی ہے۔

لوہڑی کے خوبصورت میلے کے اختتام کے ساتھ نوجوان کی 28 جنوری کو چھٹی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ مہینہ گھر گزارنے کے بعد اب واپسی بڑی مشکل لگ رہی ہوتی ہے نوجوان کے سینے میں فوجی دل ہوتا لہذا گھر والوں سے رخصت ہوتا ہے بیگم بھیگی آنکھوں سے رخصت کرتی تو نوجوان بولتا تم اپنے ماں باپ کے گھر سے ہو آو مہینہ وہیں رہ لینا کیوں کے میں اب چار ماہ بعد چھٹی آوں گا۔

28 جنوری کے بعد نوجوان واپس اپنی یونٹ میں لوٹتا ہے، 14 فروری کو وہی نوجوان صبح گھر فون کرتا ہے اور اپنے چھوٹے بھائی سے بات کرتا ہے کہ میں سری نگر جا رہا ہوں شام کو پہنچ کے فون کروں گا۔ سہ پہر تین بج کے پندرہ منٹ پر اس نوجوان کی گاڑی ایک خود کش دھماکے سے اڑا دی جاتی ہے اور وہ نوجوان اپنے 42 اور جوانوں کے ساتھ جان بحق ہوجاتا ہے۔ اس نوجوان کا نام سکھجندر سنگھ تھا اور وہ کشمیر میں جان بحق ہونے والے سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے جوانوں میں سے ایک تھا۔

اب آتے ہیں تصویر کے دوسرے رخ کی طرف، وادی کشمیر کے ایک علاقے ترال کے گاؤں شریف آباد میں ریاضی کے استاد اور ہائی سکول ہیڈ ماسڑ مظفر صاحب رہتے ہیں۔ ان کی اہلیہ میمونہ پوسٹ گریجویٹ ہاوس وائف ہیں۔ ان دونوں کے چار بچے تھے اب دو ہیں۔ بڑا بیٹا خالد ایم کام تھا چھوٹا میٹرک میں تھا۔ ان دونوں سے چھوٹی ایک بہن اور بھائی زیر تعلیم ہیں۔ گاؤں والے بتاتے ییں اب سے چھ برس پہلے 2010 کے کسی ایک دن خالد اور اس کا وہ بھائی جو میٹرک میں تھا موٹر سائیکل پے جا رہے تھے پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ کے اہلکاروں نے انھیں روکا، منہ ماری ہوئی، اہلکاروں نے انھیں پیٹنا شروع کر دیا خالد بے ہوش ہو گیا اور میٹرک والا نوجوان وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔

ایک برس بعد خبر آئی وہ نوجوان حزب المجاہدین میں شامل ہوگیا۔ 2013 میں اس نوجوان کے بھائی خالد کو بھارتی فوج نے شہید کر دیا۔ نوجوان کے لیے یہ ایک بہت دردناک لمحہ ہوتاہے۔ نوجوان کی زندگی کا ایک یہی مقصد ہوتاہے اپنی وادی سے بھارتی فوج کے غنڈوں کو نکالنا۔ اس کے لیے نوجوان سوشل میڈیا کا سہارا لیتا ہے۔ آئے روز فیسبک اور یوٹیوب پر مختلف ویڈیوز اپ لوڈ کرتا ہے جس میں وہ عوام سے مطالبہ کرتا کہ وادی کشمیر کے لئے دنیا بھر کے کشمیری متحد ہو جائیں اور بھارتی فوج کے قبضے سے اس کو آزاد کروائیں۔

جون 2016 ہندو یاترا کے لئے کشمیر آتے ہیں وہی نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے پیغام دیتا ہے کہ کشمیر میں آنے والے ہندو ہمارے مہمان ہیں دشمنی بھارت کی فوج سے ہے بھارت کے واسیوں سے نہیں۔ حزب المجاہدین سے تعلق رکھنے والا 21 سالا جوان جس کو دنیا برہان مظفر وانی کے نام سے جانتی ہے۔ 8 جولائی 2016 کو جنوبی کشمیر کے جنگلاتی علاقے کوکر ناگ کے بندورو گاؤں میں پولیس کے اسپیشل گروپ راشڑیا رایفل اور سنڑل ریزرو پولیس کے ایک مشترکہ آپریشن میں مار دیا جاتا ہے اس کے بعد کشمیر پھٹ پڑتا ہے۔

یہ دو واقعات ہیں جن سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ حالیہ کشمیر حملے میں ہلاک ہونے والے بھارتی فوجیوں کے سانحہ پر بھارتی میڈیا ایک جنگ کا سماں پیش کر رہا ہے۔ حسب عادت بغیر ثبوتوں کے تمام الزامات پاکستان پر لگاے جارہے ہیں۔ مودی سرکار دھمکی آمیز پیغامات بجھوانے پر اتر آئی ہے، ممکنہ طور پر پاکستان میں ہونے والی کرکٹ لیگ اور سرمایہ کاری روکنے کے لیے بزدلانہ چالیں چلنا شروع کر دی ہیں۔

مودی سرکار کو اب سمجھنا چاھیے کہ یہ 90 کی دہائی نھیں ہے یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ففتھ جنریشن وار کا زمانہ ہے صاحب علم اور صاحب عقل لوگ اب ہندوستان سے آوازیں اٹھا رہے ہیں۔ مظفر وانی جیسے نوجوان میٹرک کے بعد اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ڈاکڑ بننا چاہتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایسے نوجوانوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ قلم کی جگہ بندوق اٹھا لیں۔ ایسی اٹھی ہوئی بندوقیں سرحد کے دونوں پار ماؤں سے بیٹے، بیویوں سے سہاگ اور بہنوں سے بھائی چھین رہی ہیں۔ سرحد کے دونوں پار شیطانیت اور سیاسی ہٹ دھرمی کے اس کھیل میں اب کوئی سکھ جندر سنگھ نہیں مرنا چاہیے کوئی اور برہان وانی درندوں کے ہاتھ نہیں چڑھنا چاہیے۔ جنت نظیر وادی میں جنت لوٹ آنی چاہیے۔ اس گھٹیا سیاست کا خاتمہ ہونا چاہیے سرحد کے دونوں پار امن ہونا چاہیے۔

تاریخ گواہ ہے آپ جتنی بھی بڑی عالمی طاقت بن جائیں طاقت کے نشے میں جتنی مرضی لاشیں گرا دیں آپ کو ایک دن لازمی مذکرات کے میز پر بیٹھنا ہوتا ہے۔ امن کے معادے کرنے پڑتے ہیں۔

آپ ہندو میں مسلمان، یہ عیسائی وہ سکھ
یار چھوڑو یہ سیاست ہے چلو عشق کرتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).