تحریک ”آزادی“ کشمیر کا تاریک پہلو


اسے میں کشمیریوں کی بدقسمتی ہی کہوں گا کہ پلوامہ حملے کے بعد سرحد کے دونوں اطراف ڈیڑھ ارب کی آبادی میں کوئی ایک شخص بھی نہیں تھا جو اسے ”تحریک آزادی جموں کشمیر“ کے تناظر میں دیکھ رہا تھا بلکہ سب اسے پاکستان اور ہندوستان ہی کی جنگ تسلیم کیے جا رہے تھے۔ ہندوستان بھر میں سرجیکل اسٹرائیک دوم اور ایک کے بدلے دس کے ہیش ٹیگ سوشل میڈیا پر چل رہے تھے جبکہ پاکستان کے بعض حلقوں کی جانب سے اس بات کی خوشی منائی جا رہی تھی ایک ہی وقت میں اتنے سارے بھارتی فوجی ایک ساتھ ہلاک ہوئے۔

میڈیا، صحافی، تجزیہ نگار، وزراء، سماجی حقوق کی تنظیموں کے کارکن حتی کہ فنکار اور ادیب بھی اسے پاکستان اور بھارت کے تناظر میں ہی دیکھ رہے تھے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں کیفی اعظمی کانفرنس میں جاوید اختر اور شبانہ اعظمی نے اپنی شرکت بھی منسوخ کر دی یوں آرٹس کونسل کراچی کو دو روزہ کیفی اعظمی کانفرنس منسوخ کرنا پڑی جس کی تیاری کا کام آخری مراحل میں تھا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کو مسئلہ کشمیر سے نہ جوڑنے، ریاست جموں کشمیر میں جاری کسی بھی شکل میں موجود تحریک آزادی ریاست اور اسے پاکستان اور ہندوستان کے کھاتے میں ڈالنے سے کس کو نقصان ہوا اور کس کو فائدہ ہوا؟ آخر اس اہم مسئلے سے پہلو تہی کیوں کی گئی یا کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین ٹیوٹر اور فیس بک پر آمنے سامنے تھے خوشیاں اور غم ایک ساتھ منایا جا رہا تھا یہ دو روز ان لوگوں پر بہت بھاری تھے جو اسے پاکستان اور ہندوستان سے زیادہ ریاست جموں کشمیر کے شہریوں کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان اور ہندوستان کے عام شہری، سیاسی کارکن، سماجی تنظیمیں، انتطامی ادارے اور میڈیا مسئلہ کشمیر کے بنیادی پہلوو ¿ں سے ہی ناواقف ہیں تو بے جا نہیں ہو گا۔ پلوامہ حملے میں حملہ آور ایک کشمیری نوجوان تھا جو اپنے خاندان سے کچھ عرصہ قبل الگ ہوا تھا اور پھر اب اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اس حملے میں خود کشی کر چکا ہے۔ اس کی ذمہ داری جیش محمد نے قبول کی جو مسئلہ کشمیر پر بنی ہوئی ایک پاکستانی عسکری تنظیم ہے اور جس پر پاکستان میں پابندی ہے۔

کشمیر میں جاری عسکری جنگ آزادی سے زیادہ مذہبی جنگ تسلیم کی جاتی ہے اور اس کے تانے بانے سیدھا پاکستان سے جوڑے جاتے ہیں حتی کہ پلوامہ حملے پر امریکہ کا کھلا پیغام بھی آتا ہے۔ اس سب دھکم پیل میں مسئلہ کشمیر کہیں دب کر رہ گیا۔ پاکستان کا مسئلہ کشمیر پر بیانیہ پہلے ہی سوال کھڑے کرتا ہے اور اس طرح کے واقعات کو پاکستان سے جوڑنے کے بعد یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے کہ کیا کشمیر میں جاری جنگ پاکستان اور ہندوستان کی جنگ ہے یا پھر کشمیریوں کی ہندوستان سے جنگ ہے۔

تحریک آزادی کشمیر کو پاکستان سے جوڑنے سے سب سے زیادہ نقصان کشمیریوں کو ہو رہا ہے جو ہندوستان کے خلاف ستر سال سے برسر پیکار ہیں اس طرح کے واقعات کے بعد جہاں کشمیریوں کے بین القوامی مسئلہ پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے وہیں بین الاقوامی برادری جو اس مقام پر ہوتی ہے کہ اسے کشمیریوں کے انسانی مسئلے کو طور پر تسلیم کیا جائے یک دم اسے پاکستان اور ہندوستانی مسئلہ تسلیم کر کے خاموش ہو جاتی ہے۔ پاکستان کو کچھ عرصہ نقصان کے بعد ایک دفعہ پھر یہ فائدہ ہو جاتا ہے کہ کشمیر کا کھاتا پاکستان کے حصے میں کھل رہا ہے۔ گزشتہ ایک برس میں پانچ سو سے زائد کشمیر بھارتی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہوئے جبکہ سیز فائر لائن پر دونوں اطراف سے فائرنگ کی وجہ سے ایک سو تیس سے زائد کشمیری ہلاک ہوئے۔

پاکستان بھی مسئلہ کشمیر پر وہی حکمت عملی یا بیانیہ اپنائے ہوئے ہے جو بھارت کا ہے فرق یہ ہے کہ پاکستان اسے مذہبی بنیادوں پر اپنائے ہوئے ہے اور بھارت اسے ہٹ دھرمی پر۔ دونوں ممالک کی اس جنگ میں مسئلہ کشمیر کے حقیقی فریق یعنی کشمیری کہیں دب کر رہ جاتے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ کھلے دل سے کشمیریوں کی پرتشدد تحریک سے علیحدگی اختیار کرے۔ موجودہ آزاد کشمیر کی منتخب حکومت کو مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے راستہ فراہم کرے تاکہ کشمیریوں میں خود اعتمادی کی فضا پیدا ہے (یہ بذات خود پاکستان کے حق میں بھی بہتر ہے کیونکہ اقوام متحدہ کی قراردادیں جن کا واویلا پاکستان کرتا ہے وہ پاکستان کے بیانیے کا الٹ ہیں ) اور موجودہ اخلاقی اور سیاسی حمایت جاری رکھے جب تک پاکستان یہ نہیں کرے گا بھارت اسے پاکستان کی جانب سے نیابتی جنگ کہہ کر فائدہ اٹھاتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).