صیاد و باغباں میں ملاقات ہوگئی


 تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم کو قرض کی مئے سے ریاستی انصرام چلانے کی عادت پڑگئی اس کے لئے اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونا مشکل ہو جاتاہے۔ کچھ یہی حال وطنِ عزیز کا ہے کہ قیام سے اب تک ہر حکومت آئی ایم ایف کے ہاتھوں مقروض سے مقروض ترہوتی گئی۔ ادھر آئی ایم ایف کا وتیرہ رہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو قرض کے جال میں یوں پھنساتی ہے کہ وہ قرض کے نشے کے عارضے میں مبتلا ہوکر عالمی معاشی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ افراطِ زر میں تیزی سے اضافہ مہنگائی کی سونامی کا موجب بنتا ہے اور گردشی قرضے بھی بڑھنے لگتے ہیں۔

پچھلی حکومت کی نسبت گردشی اور بیرونی قرضوں کا حجم دوگنا ہو چکا ہے۔ سٹیٹ بنک میں نو بلین ڈالر کا ناکافی زر مبادلہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سب ماضی کا ورثہ ہے مگرموجودہ حکومت بھی معیشت، سیاست اورنظامت کے اصولوں سے یکسر نا بلد ہے۔ ملک کو خیالی ریاست سمجھنے والوں کا پالا پڑا تویہاں رفو گری کا ڈھیروں کام نکلالیکن ان سے رفو گری ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ایک طرف ہم نے ایٹم تک بنا لیا مگر دوسری جانب کشکول کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوڑا۔

ہم دوسروں کے سہاروں کے بغیر کام کرنا نہیں جانتے۔ پہلے انگریز کے بنائے قوانین اورمحکموں کو لے کر چلتے رہے۔ پھر امریکہ اور دوست ممالک پہ انحصار کیا۔ اب سی پیک کے ثمرات کے منتظر ہیں۔ مستزاد کہ ہمارے بڑے شہروں کی صفائی کے ٹھیکے بھی غیر ملکیوں کے پاس ہیں۔ دوسروں پہ تنقید کرنے والے آج قرض لینے کے طریقہ کار کو بڑے تفاخر سے بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ سوچنا یہ ہے کہ قرض لینے کو بے شرمی، بے غیرتی اور خود کشی کے مترادف کہنے والے اسی ڈگر پہ جانے پہ کیوں مجبور ہوئے ہیں۔

جواب میں سابقہ حکومت پہ الزام کے سوا کچھ نہیں بنتا۔ حالانکہ عرب امارات، سعودیہ، ملائیشیا، ترکی، چین، قطروغیرہ سے امداد اور آسان شرائط پہ قرض مل رہا ہے۔ ڈیم فنڈبھی محفوظ ہے جبکہ سبسڈیز بھی ختم کر چکے ہیں اور اخراجات کم کرنے کا ڈھنڈورا بھی عام ہے مگر معیشت، ڈالر اور حکومتی امور قابو سے باہر ہیں۔ بہت سے ممالک نے معاشی کسمپرسی کو محنت اور اہلیت سے خوشحالی میں بدلا ہے تاہم یہاں صرف اعلانات، خوش فہمیوں اور دیانت کے اظہار کو کافی سمجھا جارہا ہے۔

قرض سے تائب حکمران اب آئی ایم ایف کے شجرِ ممنوعہ سے رجوع کر کے اپنی ہی پاکئی داماں کی حکایت کی نفی کرچکے ہیں۔ اور مائی ایم ایف یعنی کرسٹینا لیگارڈسے باضابطہ ملاقات بھی ہو چکی ہے۔ ان معاہدات کی خوفناک شرائط حسب ِ سابق عوام سے مخفی رکھی جارہی ہیں۔ ان کا جواز مان لیا جائے تو پھر سابقہ حکومتوں کی مجبوریوں کو بھی ماننا پڑے گا۔ کسی نہ کسی کو تو بارش کا پہلا قطرہ بننا ہے مگر سر کارِ بے سرو کار بھی اس گلستاں کی امیدوں سے کھیل کر صیادوں کے ہمرکاب نظر آ رہی ہے۔ عوام کو مزید مہنگائی اور مایوسی نظر آرہی ہے۔ لیگارڈ اور وزیر اعظم کی ملاقات پہ اب اس شعر کی گونج یقینی ہے،

اے بلبلِ بہارِ چمن اپنی خیر مانگ
صیّاد و با غباں میں ملا قات ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).