بائی گاڈ محبوب از ماڈرن


محبوب میرا دوست تھا، گو کہ اُس کا محبوب بھی میرا دوست تھا لیکن میں کیونکہ کنزرویٹیو ہوں اس لئے اس بات کا اظہار کبھی اپنے دوست محبوب کے سامنے نہ کرسکا۔ یہ اظہار نہ کرنا محبوب سے دوستی میں میری واحد بے وفائی ہے کیونکہ ایسے کرنے سے محبوب کے مقاصد کو یقینا جِلا مل سکتی تھی۔ خیر اب یہ قصہ پارنیہ ہے اور محبوب بھی۔ محبوب کو آخری ایام میں ہم موبی کہہ کر پکارتے تھے، یہ بھی اسی کی خواہش تھی۔ کہتا تھا لفظ موبی سے مارڈن سے ”لنک“ بنا رہتا ہے۔

آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کے آخری ایام میں موبی تھا تو اس سے پہلے کیا نام تھا؟ اس حوالے سے مختصراً عرض ہے کہ ماں باپ نے تو نام محبوب جان رکھاتھا۔ جسے اُس نے ریمبو سیریز دیکھنے کے بعد جون کردیا تھا۔ میں نے کہا یار نام کی اس تبدیلی سے مذہب متاثر ہو سکتا ہے تو اُس نے میرے سامنے جون ایلیا کی کتاب رکھتے ہوئے مجھے لاجواب کردیا۔ مجبوراً میں تو مطمعئن ہوگیا لیکن وہ اب بھی نام کے پہلے حصے کو لے کر مطمعئن نہ ہوسکا تھا۔ پھر محبوب کئی روز کے لئے غائب ہوگیا اور ایک دن انگریزی لغت لئے نمودار ہوا اور کہنے لگا کہ اب سے اُسے صرف بی لوڈ جون لکھا اور پکارا جائے۔ میں نے اُسے سمجھایا کہ نام تمام زبانوں میں ایک ہی رہتا ہے لیکن وہ نہیں مانا۔ پھر میں نے کہا کہ یہ بات ایک انگریز مصنف نے بھی لکھی ہے تو فوراً مان گیا۔

محبوب جان شروع میں بالکل ایسا نہیں تھا۔ مگر نجانے ایک روز اس کے دل میں کیا سمائی کہ پوچھنے لگا کہ لڑکیاں فیشن کیوں کرتی ہیں؟ میں نے کہا تاکہ دوسروں سے منفرد دکھائی دے سکیں۔ بہت غور و فکر کے بعد فرمانے لگا کہ اس کا مطلب ہے کہ اگر انسان منفرد نہ ہو تو لبادہ مختلف کرلے ایسے وہ ممتاز نظر آئے گا۔ میں محبوب کی اردو سے متاثر ہوا کہ ایک ہی جملے کِس خوبصورتی سے تین ہم معنی لفظ پرو دیے، اُسکی اردو کی توصیف بیان کی تو بُرا مان گیا۔

فوراً بولا مجھے اردو نہیں آتی اور چلا گیا۔ میں نے اُسے جاتے دیکھا کہ اس کے قدم ماڈرن ازم کی جانب گامزن ہیں۔ اگلے دن سے اُس نے اردو بولنا بالکل ترک کردیا۔ اُس نے پانی کی جگہ واٹرپینا شروع کردیا، اور زندگی بھر دوپہر کا کھانا نہیں کھایا صرف لنچ کیا۔ یہاں تک کہ گالیاں بھی انگلش میں دینے لگا تھا، جن کا آفس پیون، محلے والوں اور رکشے والوں پہ کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ میں حیران تھا کہ جتنی تیزی سے شاعروں کے بے وفا محبوب بدلتے ہیں اتنی ہی تیزی سے میرا دوست محبوب بھی بدل رہا تھا۔

ایک روز میں نے دیکھا کہ وہ آفس کی حجاب کرنے والی کولیگ کی کلاس کررہا ہے۔ کہتا تھا تم خودکو سُپرئیر سمجھتی ہو اور باقیوں کو گناہگار۔ لڑکی کو محبوب کی ذہنی حالت پہ شک ہوا۔ اس سے پہلے کہ محبوب کا دہن حقارت بھراکوئی اگلا جملہ ادا کرتا اور لڑکی کا ہاتھ اُٹھ جاتا۔ میں بیچ میں کود پڑا۔ کیونکہ یہ تمانچہ محبوب کے گال پہ نہیں ماڈرن ازم کے چیکسCheeksپہ لال نشان چھوڑ جاتا۔ لڑکی سے معذرت کرکے میں محبوب کوکھینچتا ہوا کیفے ٹیریا میں لے آیا اس دوران محبوب زیرِ لب اسٹوپڈ کے علاوہ تمام ناقابلِ اشاعت انگریزی گالیاں دیتا رہا۔

مجھے محبوب کا چور سوئچ معلوم تھا چنانچہ فوراً کہہ دیاکہ وہ حجاب پہنے یا اسکرٹ ہم اسے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ انگریز لکھاری تو شخصی آزادی کو بنیادی حق مانتے ہیں۔ محبوب نے چونک کر مجھے دیکھا۔ اُسکی آنکھوں میں ندامت کے آنسو تیر رہے تھے جیسے انگریز لکھاریوں کے خیالات کے خلاف عمل کرکے اُس سے گناہ سرزد ہوگیا ہو، شاید وہ توبہ بھی کرنا چاہتا تھا لیکن توبہ خالصتاً ایک مذہبی عمل ہے اور مجھے گمان ہوا کہ اب اس کی زندگی میں مذہب کی گنجائش نہ رہی۔

پھر ایک روز اُس نے یقین بھی دلادیا، اپنے فون سے شہر کے بھکاریوں کی تصاویر بنا کے لایا اور دکھاتے ہوئے کہنے لگاکہ لوگ حج کیے جارہے ہیں لیکن غریب بھوکے مررہے ہیں، یہ نہیں ہوتا کہ حج کی رقم کسی ”انڈر پیرو لیجڈ“ کو دے دیں۔ میں نے صرف اثبات میں سر ہلایا اور پوچھا یہ تمھارا آئی فون نئے والا ہے؟ اُس نے مجھے دیکھا اُسکی آنکھوں میں بیگانگی اُمڈ آئی تھی، اُٹھا اور دروازے کے پاس جاکر بولا یہ ضرورت کی چیز ہے اور باہر چلا گیا۔

اگلے دن میں کام میں مصروف تھا تومحبوب نے میرے میز پہ زورسے ایک کتاب لا پٹخی، میں بدتمیزی کی وجہ پوچھنے ہی والا تھا کہ بولا تم توکہتے تھے سیکسٹی فائیو میں بھارت نے اٹیک کیا تھا۔ اس کا یقین دیکھتے ہوئے میں نے فوراً اپنی تاریخ سے رجوع کیا اور کہا ہاں۔ اس کی واحد دلیل وہ کتاب تھی۔ میں نے کہا ایسی تو سینکڑوں کتابیں وہاں بھی لکھی گئی ہیں جن میں بھارت کو غلط کہا گیا ہے۔ بولا وہ سب بکواس ہیں۔ میں اس کی مکمل بات ہی پہ لفظ بکواس سے متفق ہوگیا۔

کیونکہ مجھے معلوم تھا اب اس کا اگلا ہدف دوقومی نظریہ ہوگا، لیکن نہیں وہ تو ٹو نیشن تھیوری پہ بات کرنا چاہتا تھا کہ میرا فون آگیا اور میں اُٹھ کر چلا گیا۔ کچھ دنوں بعد میں نے غور کیا کہ محبوب اخلاق سوز گفتگو بھی کرنے لگا ہے یا پھر یہ صرف میری تنگ نظری تھی۔ وہ آفس کی لابی میں سب کولیگز کے سامنے ایک سو چالیس کہ رفتار پہ گاڑی بھگانے سے ملنے والے لطف کو بار بار آرگزم کہہ رہا تھا۔ میں نے اسے ایک طرف لے جاکراردوزبان میں لفظ کی تشریح کی تو وہ مجھے کراہت بھری نظروں سے دیکھنے لگا، جیسے اردو میں آکر لفظ غیر مہذب ہوگیاہو۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2