ریاستی انصاف کی صرف چار مثالیں


کیا ریاست انصاف کی فراہمی میں سنجیدگی دکھا رہی ہے؟ میں نے نفی میں سر ہلایا کیونکہ میرے دوست کے اس سوال کا جواب مجھے دس سیکنڈ کے اندر مل چکا تھا۔ میرے دوست نے اس نفی کی وجہ پوچھی تو ماضی میں جانے کی بجائے میں نے بات کا آغاز پچھلے سال کی جنوری سے کیا۔ اس ضمن میں میرے معلومات کے مطابق نقیب اللہ محسود، ایس پی طاہر داوڑ، سانحہ ساہیوال اور پروفیسر ارمان لونی چار ایسے مشہور قتل کیسز تھے جن کے ورثا کوابھی تک انصاف نہیں ملا ہے۔

میں نے اپنے دوست کو ریاستی انصاف کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ نقیب اللہ محسود پچھلے سال تین جنوری کو شہر قائد میں لاپتہ کردیئے گئے اور تیرہ جنوری کو راؤ انوار نے ایک جعلی پولیس مقابلے میں انہیں تین دیگر ساتھیوں سمیت قتل کر کے انہیں خطرناک دہشت گرد قرار دے دیا۔ لیکن چند دن کے اندر ہی زبان خلق کی برکت سے نقیب اللہ محسود سو فیصد بے گناہ اور راؤ انوار اینڈ کمپنی جھوٹی ثابت ہوئی۔ ان کا نام ای سی ایل میں بھی ڈالا گیا، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس کیس کا ازخود نوٹس لے لیا۔

طویل روپوشی کے بعد یہ ایک دن سپریم کورٹ میں پیش بھی ہوئے لیکن ان سب کچھ کے باوجود ہماری ریاست راؤ انوار صاحب کو سزا دینے سے کترا رہی ہے۔ حال ہی میں تو کراچی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے بھی نقیب محسود کی بے گناہی کا پروانہ جاری کرتے ہوئے کہاہے ”کہ نقیب اللہ محسود بے گناہ تھے اور عدالت کو دہشت گردی کی سرگرمی میں ان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد اور فارنسک رپورٹ الزامات کو ثابت نہیں کرتے لہٰذا نقیب اللہ محسود کے خلاف دہشت گردی، اسلحہ وبارودرکھنے کے الزام میں پانچوں مقدمات خارج کیے جاتے ہیں“۔

میں نے اپنے دوست کو ریاستی انصاف کی عدم فراہمی کا دوسرا حوالہ ایس پی رورل پشاور طاہر داوڑ قتل کیس کا دیا۔ طاہر داوڑ ایک بہادر پولیس افسر اور دہشت گردی کے خلاف ہر محاذ پر سرگرم رہے تھے۔ پچھلے سال اکتوبر کی چھبیس تاریخ کو سیف سٹی اسلام آباد سے نامعلوم مسلح افراد نے ا س وقت اغوا کیا جب وہ شام کو اپنے گھر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ پہلے تو ان کی رہائی کے سلسلے میں حکومت نے وہ اقدامات نہیں کیے جو ایک ذمہ دار حکومت کو کرنے ہوتے ہیں۔

بیٹا امجد داوڑ اور بھائی ان کے قتل کا کھوج لگانے کی خاطر در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے لیکن حکومت کے ذمے دار مشیر اور وزراء ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ غالباً انیس روز بعد طاہر داوڑ کی گولیوں سے چھلنی لاش افغانستان کے ننگرہار سے برآمد ہوئی۔ بعد میں لواحقین نے اس ہائی پروفائل قتل کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔ حکومت کی جانب سے تین دن کے اندر بنانے جے آئی ٹی بنانے کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن چار مہینے گزرنے کے باوجود ابھی تک جے آئی ٹی نہیں بنی ہے۔

پچھلے دنوں ان کے بیٹے امجدطاہر داوڑ نے تنگ آکر سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ویڈیو پیغام جاری کردیا۔ ریاستی انصاف انتہائی مایوس امجد داوڑ نے اس موقع پراپنے والد کے قتل کی تحقیقاتی کے لئے ایک بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ حکومت نے تین دن کے اندر ان کے والد کے قتل کے لئے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کا وعدہ کیا تھا جو تین ماہ گزرنے کے باوجود بھی نہیں بنی ہے، لہٰذا اب وہ ایک بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں ”۔

اس ضمن میں مَیں نے اپنے اس دوست کو تیسرا حوالہ ساہیوال واقعے کا دیا۔ ساہیوال ٹول پلازے پر انیس جنوری کو رونما ہونے والے اس واقعے میں ذیشان نامی ڈرائیور سمیت ایک ہی خاندان کے تین افراد بچوں کے سامنے سی ٹی ڈی اہلکاروں کی طرف سے انتہائی بے رحمی سے مارے گئے۔ نقیب اللہ محسود کی طرح اس واقعے میں بھی پہلے سی ٹی ڈی اہلکاروں نے بغیر کسی ثبوت کے ان لوگوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کی یہاں تک کہ ریاست مدینہ کے وزراء میڈیا پر آکر بھی مسلسل یہی ورد کرتے رہے۔ تاہم چند گھنٹے بعد عینی شاہدوں کی گواہی سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا۔ خلیل فیملی تو سو فیصد بے گناہ ثابت ہوئی لیکن ڈرائیور ذیشان کے نام کے ساتھ پھر بھی دہشت گردوں کی سہولت کاری کا لیبل چسپاں رہا۔ ذیشان کی بوڑھی ماں رو رہی ہیں کہ میں دہشتگرد کی ماں نہیں ہوں، اگر میرا بیٹا دہشتگرد تھا توانہیں گرفتار کرنے کی بجائے اسے مارا کیوں؟ بھارتی جاسوس کو زندہ گرفتار کیا جا سکتا تھا تو میرے بیٹے کو کیوں مارا گیا؟ برائے مہربانی میرے بیٹے سے دہشت گرد کا لیبل ہٹا دیں ہمیں اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ”۔ اس واقعے کو اب ایک مہینہ پورا ہونے کوہے مگر متاثرہ خاندان انصاف کے حصول کے لئے اب بھی ترس رہے ہیں۔

میرے دوست کو میں نے ریاست کے مردہ انصاف کی آخری مثال پروفیسر ابراہیم ارمان لونی کے بہیمانہ قتل کا دیتے ہوئے کہا کہ ابراہیم ارمان لونی بلوچستان کے ضلع لورالائی سے تعلق رکھنے والے ایک استاد اور پروفیسر تھے۔ ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ ارمان لونی پشتون تحفظ مومنٹ کے کور کمیٹی کے بھی رکن تھے۔ لورالائی میں جنوری کو پے درپے ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کے خلاف انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت لورالائی میں تین روزہ دھرنا بھی دیا۔

دھرنے کے اختتام پر شام کو شہر کے مرکزی علاقے میں پولیس کی طرف سے وہ نہایت بے دردی سے قتل ہوئے۔ قتل کے بعد ایک طرف پولیس کی طرف سے ایک بھونڈا دعویٰ یہ کیا گیا کہ مقتول کی موت تشدد سے نہیں بلکہ گرفتاری کے دوران دل کے دورے سے ہوئی ہے۔ ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ سترہ دن گزرگئے ہیں لیکن اس ہائی پروفائل قتل کیس کی ابھی تک ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوئی ہے۔ ریاستی انصاف کے حوالے سے میری یہ قابل رحم گفتگو جاری تھی کہ میرے دوست کو بے ساختہ کہنا پڑا ”پلیز بس کر دے، بس۔ اور پھر وہ خاموش ہوگئے کیونکہ ان کے پاس کہنے کو مزید کچھ نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).