فہمیدہ ریاض: میت سے نہ معافی منگوانا


ایک مرتبہ مجھے فہمیدہ ریاض کے بارے میں تعزیتی مضمون لکھنے کے لیے کہا گیا۔ قباحت اس میں صرف اتنی تھی کہ وہ اس وقت زندہ تھیں۔ بڑے لکھنے والے اس قسم کی ضمنی تفصیلات سے حوصلہ نہیں ہارتے۔ مگر میں اتنا بڑا بننے سے رہ گیا۔

ہوا اس طرح کہ کراچی کے ایک انگریزی روزنامے کے لیے میں مضامین، تبصرے وغیرہ لکھتا رہا ہوں۔ اس کے ادارتی عملے میں نووارد ایک خاتون نے مجھے ٹیلی فون کیا اور یہ اسائنمنٹ میرے سپرد کر دیا۔ یہ فرمائش سُن کر میں بھونچکا رہ گیا۔ ”خیر تو ہے، کیا ہوگیا فہمیدہ ریاض کو؟ “ میں نے گھبرا کر پوچھا اور الفاظ جیسے میرے حلق میں اٹک کر رہ گئے۔

کچھ نہیں ہوا، مجھے بتایا گیا کہ بڑے اخبارات کا معمول ہے کہ ہر شعبے میں اہم شخصیات کے تعزیت نامے لکھوا کر رکھ لیتے ہیں۔ نہ جانے کس وقت جلدی میں ضرورت پڑ جائے۔ دوچار اور بھی نام لیے گئے کہ ان کے تعزیت نامے تیار کیے جا رہے ہیں اور میں چاہوں تو فہمیدہ ریاض کے بجائے ان میں سے کسی ایک کے بارے میں لکھ سکتا ہوں۔

ان میں ایک کرتب باز ٹائپ کے سیاسی شاعر کا نام بھی تھا۔ میں نے جل کر کہا، ان کے بارے میں لکھنے کے لیے تیار ہوں اور یہ بھی دعا مانگوں گا کہ اس تعزیتی مضمون کے جلد چھپنے کی نوبت آجائے۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ اسائنمنٹ مجھے نہیں دیا گیا۔ میرا پورا دن جیسے غم و غصّے کی حالت میں کٹا۔ شام کو یہ ماجرا فہمیدہ ریاض کو ٹیلی فون پر سنایا۔ غصّے میں شریک ہونے کے بجائے انہوں نے الٹا ہنسنا شروع کر دیا۔

”تمہیں اس مضمون کے لکھنے سے ہرگز انکارنہیں کرنا چاہیے تھا۔ تم نے ادب کا نقصان کر دیا۔ فوراً یہاں آؤ، اس کو سیلی بریٹ کریں“ انہوں نے اپنے گھر بلا لیا اور ہنستے ہوئے میرا استقبال کیا۔

”آؤ اس مضمون کا خاکہ بنائیں۔ تم اس طرح خیال کرو کہ یہ مضمون لکھ رہے ہو۔ اب بتاؤ میری موت کی وجہ کیا ہوئی اور اس کی تفصیلات کیا ہیں۔ “

انہوں نے فوراً ہی افسانہ گھڑنا شروع کر دیا اور ہوائی قلعہ بنانے لگیں۔ ایک اچھے شاعر کو کس طرح مرنا چاہیے۔ اور آخری رسومات کی تفصیلات کیا ہونا چاہئیں۔ اپنی موت کی الم ناک تفصیلات پر وہ بے تحاشہ ہنسے جارہی تھیں اور لوگوں کے ممکنہ ردعمل طے کرتی جا رہی تھیں۔ وہ ایک قربنِ قیاس موت تھی۔ قدرے مضحکہ خیز مگر عین ممکن۔

اپنی موت پر اس طرح ہنسنے کا حوصلہ میں نے فہمیدہ ریاض میں دیکھا۔ مختلف سیاسی اور سماجی معاملات پر جوش و جذبے کے ساتھ ساتھ ان کے مزاج میں حسِ مزاح بھی خوب کارفرما تھی۔ وہ چیزوں کے مزاحیہ پہلو دیکھ کر ان سے لُطف لینے کی اہل تھیں۔ دوسروں کی طرح اپنے اوپر بھی دل کھول کر ہنس سکتی تھیں۔ بہت مزے لے لے کر قصّے سنایا کرتی تھیں۔ سفر، مطالعہ، گوناگوں لوگوں سے ملاقاتیں ان کی قصّہ گوئی کے لیے مہمیز کا کام دیتے۔

ایک بار وہ اکادمی ادبیات کی طرف سے کسی وفد کے ساتھ چین کے سرکاری دورے پر بھیجی گئیں۔ وہاں چینی ادیبوں سے مڈھ بھیڑ اور نظریاتی بحث کا احوال تو انہوں نے اپنے ترقی پسند دوستوں کو سنایا اور مجھے جو قصّہ سننے کو ملا وہ ایک بزرگ ادیب کی تکلیف کا بیان تھا جو دیر تک پیشاب روک نہیں سکتے تھے اور ایک کارخانے کے دورے میں ضرورت محسوس کرنے کے باوجود حکام کی اجازت حاصل نہ کر سکے اور اگلے کارخانے تک روانہ ہونے کے لیے بس میں بٹھا دیے گئے جہاں ضرورت کی شدّت سے ان کی حالت غیر ہونے لگی۔ بس کے اوقات کار اور دوسری تفصیلات پہلے سے متعین تھیں اور ڈرائیور کو اچانک بس روکنے کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ اس بحران کو وہ ہر بار نئے انداز سے بیان کرتیں جس میں تکلیف کی شدّت بتدریج بڑھتی جاتی۔

اس سفر میں خالدہ حسین ان کے ساتھ تھیں۔ ان دونوں سے بڑھ کر مجموعۂ اضداد تلاش کرنا فی زمانہ مشکل ہے۔ پورے سفر میں وہ سخت احتیاط برتیں کہ صرف حلال اشیا ہی کھائیں اور فہمیدہ ریاض سے بھی یہی اصرار کرتیں۔ دونوں کو اکثر اوقات ڈبل روٹی اورسبزی پر گزارا کرنا پڑتا۔ ایک موقع پر جب ان کو تقریباً یقین ہوگیا کہ فہمیدہ ریاض سانپ یا کینچوا نگل جانے کے قریب ہیں تو ان کو تسلّی دینے کے لیے ترجمان سے پوچھا گیا کہ یہ کیا چیزہے۔

ترجمان ایک خاص طرح کی کتابی اردو بولتا تھا، جس کے انداز میں فہمیدہ ریاض باتیں کرکے خوب ہنستی ہنساتی تھیں۔ ”یہ ایک آبی مخلوق ہے۔ یہ مملکتِ چین کے گہرے سمندروں میں پائی جاتی ہے۔ “ اس نے اطمینان دلایا چاہا مگر فہمیدہ ریاض کا ہنس ہنس کر بُرا حال نہ صرف اس وقت ہوگیا بلکہ مجھے سناتے ہوئے بھی وہ قہقہے لگا رہی تھیں۔

اس کے بعد انہوں نے مذاق بنا لیا۔ کسی ناپسندیدہ آدمی کے بارے میں رائے کا برملا اظہار کرنا ہوتا تو وہ خالدہ حسین کی پریشانی اور ترجمان کا جواب دہرانے لگتیں۔ ”یہ ایک آبی مخلوق ہے۔ “

وہ خود آبی مخلوق نہ بن سکیں۔ ان کے مزاج میں ایک نوع کی معصومیت سی تھی جو بعض مرتبہ سادہ لوحی (Naivete) کے قریب پہنچ جاتی اور اس کی بدولت وہ تکلیف دہ حد تک غیر ضروری بحث میں الجھ جاتیں یا مشکلات میں پھنس جاتیں۔ مشکلات میں پھنس جانے کا ان کو خاص سلیقہ تھا، اور وہ بڑی تن دہی سے یہ فریضہ سرانجام دیا کرتی تھیں۔ وہ کراچی اور اسلام آبادمیں اعلا اختیار والے عہدوں پر فائز رہیں اور صاحبان اقتدار سے سلام دعا بھی رہی لیکن اس مزاج کی وجہ سے وہ اس قسم کے خاطر خواہ فائدے نہ حاصل کر سکیں جس طرح پاکستان کے بعض دوسرے ادیبوں نے بڑے دھڑّلے سے حاصل کیے اور پھر بھی نیک نام بنے رہے۔ آسودگی اور فراغت کی خواہش کے باوجود وہ بہت محنت کوش تھیں۔ چناں چہ آخری دم تک گھر چلانے کی ذمہ داری اٹھائے رہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2