ہمارا فردوس بریں


بحیرہ قزوین ایران میں واقع ہے یہ نام جب بھی تاریخ میں آپ کی نظروں سے گزرے گا وہاں ”قلعہ الموت“ کا ذکر ضرور ہوگا۔ یہ بحیرہ قزوین کے قریب ایک پہاڑی قلعہ تھا اور اس کی تاریخی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہی وہ قلعہ تھا جہاں سے ایک تاریخی فتنے کو مانیٹر کیا گیا اور اسی قلعے میں بیٹھ کر حسن بن صباح نے پوری دنیا میں ایسی تباہی اور اُودھم مچایا کہ انسانی عقل حیران رہ گئی۔ یہاں بیٹھ کر وہ ایک عجیب مراقبے میں پڑا رہتا ’لوگ یہ سمجھتے کہ یہ اس زمانے کا وہ پیر خاص ہے جس کی وجہ سے نجات ممکن ہے لیکن ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ پورا دن اپنا سر گھٹنوں میں دبائے یہ شخص ایک ایسے فتنے کی تیاریاں کررہا ہے جس کا کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا۔

آپ حسن بن صباح کا کمال دیکھیے۔ آپ نے نوجوانوں کی ذہن سازی کی اور اس کے لئے جو ٹیکنیکس استعمال کیے ان کی مثال آج کل کے اس جدید دور میں بھی نہیں ملتی۔ اس کے لاجواب ٹیکنیکس کی وجہ سے پورے عالم میں اس کا فتنہ پھیل گیا اور خاص طور پر ناسمجھ نوجوان تو اس کو زمین کا خدا تک سمجھنے لگے تھے۔ آپ نے ٹیکنالوجی کے بغیرایسا حیران کن کام کیا تھا کہ تاریخ عالم آج تک حیران ہے۔ یہ وہ دور تھا جب ففتھ جنریشن وار کا کونسپٹ ابھی آیا بھی نہیں تھا لیکن یہ اس ایک انسان کا کمال تھا کہ آپ نے بڑے بڑے لوگوں کو بغیر لڑے راہ راست سے بھٹکنے پر مجبور کیا۔ آپ نے نوجوانوں کا جو گروہ بنایا تھا اس کو حشاشین کہتے تھے۔ تاریخ میں ایسے ہزار لوگوں کا ذکر موجود ہے کہ جن کے بارے میں یہ گمان ہوتا کہ حشاشین کا مقابلہ یہی لوگ کرسکتے ہیں لیکن حسن بن صباح کے کمال کی وجہ سے یہی بھلے لوگ جب ان سے ملے تو خود فدائین بن گئے اور پھر ان کا کام صرف دوسروں کو مارنا تھا۔

یہ اتنا عجیب فتنہ تھا کہ اُس وقت کے حکمران بھی اس فتنے سے نہ بچ سکے۔ مذہب کی آڑ لے کر آپ نے ایک دنیاوی جنت بنائی تھی جس میں ان تمام چیزوں کا بندوبست مصنوعی طور پر کیا تھا جن کا ذکر جنت کے حوالے سے قرآن پاک میں آیا ہے۔ دودھ کی نہریں، خوب صورت حُوریں، نغمہ سنج طیور، شرابِ طہور کی محفلیں اور ان جیسی وہ تمام چیزیں اس مصنوعی جنت کا حصّہ تھیں جس کی وجہ سے اچھے بھلے نوجوان اس جنت کی سیر جب ایک بار کرتے تو بار بار وہ چاہتے کہ اس جنت کی مسحُور کن فضاؤں میں دوبارہ سانس لے سکیں۔ اس جنت کی سیر کے لئے جب فدائی نوجوانوں کو لے جایا جاتا تو پہلے اُن کو بھنگ کا نشہ دیا جاتا اور جب تک وہ اپنے حواس میں آتے ان کے گرد ”حوروں“ کا ٹولہ موجود ہوتا۔

عبدالحلیم شرّر اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”فردوس بریں“ میں کافی تفصیل سے اس کا ذکر کرتے ہیں۔ اپنے مشن اور مقاصد کے حصول کی خاطر آپ نے نوجوان فدائیوں کا ایک لشکر تیار کیا تھا جن کا کام یہ تھا کہ وہ اُس دور کے اسلامی سوچ رکھنے والے حکمرانوں، عالموں اور عام لوگوں کو قتل کردیتے جس کے بدلے میں ان فدائیوں کو جنت کی سیر کرائی جاتی جہاں وہ حُوروں کی نشیلی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لمبی راتوں میں نہ ختم ہونے والی دید کے مزے لیتے اور جہاں ”شراب طہور“ کے نشے میں دُھت یہ نوجوان جنتی ان حوروں کی گود میں پوری پوری رات پڑے رہتے۔ دو تین دن جنت کے یہ مزے لینے کے بعد پھر ان کودوبارہ بھنگ کا نشہ دے کر واپس حسن بن صباح کے پیروں میں ڈال دیا جاتا۔

واپس آکر یہ نوجوان عجیب کیفیت میں مبتلا رہتے اور ان کی یہ شدید خواہش ہوتی کہ دوبارہ اس جنت کی سیر کی جائے۔ اس خواہش کی وجہ سے یہ اکتاہٹ کا شکار ہوجاتے اور یہ فدائی بن جاتے۔ یہ ہاتھوں میں زہر آلود خنجریں تھام لیتے اور دنیا کے ان تمام لوگوں کا کام تمام کردیتے جن سے ان کو ذرہ بھر بھی خطرہ محسوس ہوتا۔ یہاں تک کہ سلجوق دور کے مشہور وزیر نظام المک طوسی کو بھی انہوں نے قتل کیا اور تاریخ میں یہ تلخ حقیقت موجود ہے کہ یہی نظام الملک طوسی اور حسن بن صباح بچپن کے ساتھی بھی تھے۔

عبدالحلیم شرّر نے اپنے شہرہ آفاق ناول ”فردوس بریں“ میں حسین اور زمرّد کے کرداروں سے اس فتنے کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ حسین اور زمرّد کوہ البرز میں انتہائی ڈراؤنے ماحول میں جب ایک قبر کے کنارے موجود ہوتے ہیں تو دونوں پر ڈر کے مارے سکتہ طاری ہوجاتا ہے اور ایسے میں جب انہیں پریوں کا غول نظر آجاتا ہے تو دونوں دھڑام سے گر کر بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ حسین جب ہوش میں آتا ہے تو وہاں زمرد نہیں ہوتی اور پھرپورے ناول میں وہ اس کی کھوج میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ حشاشین اس کو اپنی بنائی ہوئی جنت میں لے جاتے ہیں جہاں ان کی ملاقات زمّرد سے کروائی جاتی ہے۔ آپ اس فتنے کو اگر تفصیل سے پڑھنا چاہتے ہیں تو ”فردوس بریں“ کا ایک بار ضرور مطالعہ کریں۔

اس فتنے کا خاتمہ ہلاکو خان کی وجہ سے ہوا جس نے حسن بن صباح کے آخری جانشین رکن الدین کو گرفتار کرکے قلعہ الموت پر قبضہ کیا اور ہزاروں فدائین کو بے دردی سے قتل کیا۔

یہ فتنہ اور ان جیسے اور ہزار فتنے تو تاریخ کا حصہ بن گئے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان فتنوں کے لئے پمیشہ نوجوانوں ہی کا انتخاب کیوں کیا گیا۔

ہم اگر تباہی اور بربادی کے اجتماعی نتائج دیکھنا چاہیں تو اس کے لئے ہمیں ہر اُس فتنے کا مطالعہ کرنا ہوگا جس کی وجہ سے ایک پوری تاریخ مٹ گئی اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں بارود اور ذہنوں میں وسوسوں کا فتنہ پیدا کیا گیا۔ ہم اگر یہ سمجھتے ہیں کہ قومی تشّخص کو تا قیامت قائم و دائم رکھنا ہے تو ہمیں ان تمام فتنوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا اور نوجوانوں کو ان تمام فتنوں سے بچانا ہوگا جن کی وجہ سے ریاست کی طرف اٹھنے والی آنکھیں الجھنوں اور شکوک و شبہات سے بھردی گئی ہیں۔

ہمارے نوجوان بھی عالمی فتنوں کے گرفت میں کسی حد تک آچکے ہیں اور ان کو تعلیم، مذہب، اخلاقیات، معاشیات، حتیٰ کہ معاشرتی طور پر بھی گھیرے میں لیا جاچکا ہے۔ ان کے پاس براہ راست نہ کوئی آیا ہے اور نہ ان کو کوئی خاص لٹریچر دیا گیا ہے اور یہی فتنے کا سب سے بڑا کمال ہے کہ اس میں کسی چیز کی براہ راست خبر نہیں ہوتی۔

ہم اگر آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان فتنوں کی ضد سے آزاد ہیں تو کسی دن سوشل میڈیا پر لاکھوں نوجوانوں کے لاکھ مختلف نظریے اور پھر بحث و مباحثوں سے تکرار کی حد تک جانے والی بے شمار لڑائیاں دیکھ لیں جن میں ہر روز عزت نفس کا کباڑہ نکل جاتا ہے۔ ہم اگر آج بھی یہ ماننے سے انکار کریں کہ ہم فتنوں سے آزاد ہیں تو سڑکوں اور چوراہوں پر نوجوانوں کے یہ جلسے جن میں گالیاں اور نفرتیں سکھائی اور دکھائی جاتی ہیں کیا ہیں؟

ہمارے نوجوانوں کے پاس زندگی کا کوئی واضح پروگرام نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں جس بھی نوجوان سے دس منٹ کی بیٹھک کی جائے صرف مایوسی اور تناؤ ہی ہوتا ہے۔

فتنوں کو دوام بخشنے کی خاطر ہمیشہ نوجوانوں کا استعمال کیا گیا ہے اور اس کی بنیادی وجوہات میں ایک وجہ یہ ہے کہ نوجوان جذباتی ہوتے ہیں اور ان کو ہمیشہ ایک مثبت پلیٹ فارم کی ضرورت ہوتی ہے جہاں ان کی صلاحیتوں پر کام کیا جاسکے۔ ہم اگر یہ مان لیں کہ ہمارے پاس کوئی واضح مواقع اور پروگرام نہیں ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔

ہم اگر کوئی اچھا پروگرام دینے میں کامیاب نہیں ہوتے تو اس میں نقصان ہمارا ہی ہوگا۔ حسن بن صباح اگر مصنوعی فردوس بریں بنا کر بہت سارے غلط کام کرواسکتا ہے تو کیوں نہ ہم نوجوانوں کو کوئی اچھا پروگرام اور لائحہ عمل دے کر کام پر لگائیں۔

ہم جب نوجوانوں کو مطمئن کرکے کام پر لگائیں گے تو ہمارا ”فردوس بریں“ پھر ہر اس مصنوعی فردوس بریں سے اچھا ہوگا جن کی وجہ سے صرف نقصان ہی نقصان ہوا ہے۔

ہم ان نوجوانوں کو جب تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھا روزگار دیں گے تو یہ پاکستان ان کے لئے خود ایک فردوس بریں ثابت ہوگا جس میں اور کچھ رہے نہ رہے لیکن ایک خوش گوار اور پرسکون زندگی موجود رہے گی اور اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو ہمارے فردوس بریں کے یہ نغمہ سنج طیور ایسے ہی ضائع ہوجائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).