سچل۔ گوتم اور نانک کی دھرتی پر نفرتوں کا کاروبار


سیاست کے کاروبار میں نفرتوں کے سودے کا بکنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ لیکن یہ ماضی بعید کی بات ہے۔ قرون وسطی میں جب انسانی سماج ریاست۔ سیاست اور قوم کے ابتدائی مراحل میں تھا۔ تو انفرادی طاقت کے بل بوتے پر ہی کوئی گرو عنان اقتدار کا والی ٹھہرتا تھا۔ اس کا اقتدار اس وقت تک قائم رہتا تھا جب تک اس علاقے کا کوئی اور طاقتور پہلے کا گلہ نہ کاٹ دے یا اسے قیدی نا بنا لے۔ دنیا آپس میں جڑی ہوئی نہیں تھی۔ ذرائع رسل و رسائل اور معلومات کی ترسیل کا نظام بھی فطری طور پر سماج کی ابتدائی شکل کے مطابق تھا۔

جوں جوں سماج نے ترقی کی معلومات میں اضافہ ہوتا گیا۔ انسانوں کی نئی بستیوں کی معلومات اور ان کی کھوج میں اضافہ ہوتا گیا۔ وہ جنگیں جو پہلے ایک ہی گروہ کے مختلف جتھوں کے درمیان ہوتی تھیں اب مختلف گروہوں کے درمیان ہونے لگیں۔ یورپ کی نشاط ثانیہ سے قبل یہ علاقہ آگ اور خون اگلتا رہا۔ نسلی منافرت اور مذہبی عقائد کو ہتھیار بنا کر اہل یورپ نے نسل انسانی کے خون سے سارے خطے کو لال کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔

پھر کچھ سیانے سب کچھ لٹنے سے ذرا پہلے اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ سارے امور حکومت اور رموز سیاست جو نفرت اور جنگ کا سبب بنتے ہیں انہیں ریاست اور سیاست سے الگ کر دیا جائے۔ چنانچہ سترہویں صدی کے وسط میں اہل یورپ نے نئے عہد کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا اور مذہبی عقائد کو انسان کی ذاتی زندگی تک محدود کر دیا اور قانون کی حکمرانی سے لے کر انصاف کی فراہمی تک ایک جیسے معیار کو پیمانہ بناتے ہوئے سماجی تقسیم کے خاتمے کی طرف سفر شروع کیا۔

آج تین درجن کے قریب مختلف اقوام اور ممالک میں بسنے والے عوام امن و آتشی سے زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ ہی تو پڑوسی ممالک سے ان کی قومی سلامتی کو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی اپنی مرضی کا جھنڈا دوسرے کی سرزمین پر گھاڑنے کے عمل کو وہ باعث افتخار سمجھتے ہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے تاریخ کی خون آشام یادیں معض فخر اور ندامت کا باعث نہیں بننے دیں۔ بلکہ اس سے حاصل ہونے والے سبق کی بنیاد پر نئے عہد کو استوار کیا۔

دوسری عالمی جنگ کی ہولناکیوں کے نتیجے میں ہونے والے تشدد اور بربادی نے عالمی سطح پر نئے رجحانات کو فروغ دیا۔ جن کے سبب ایشیا۔ اور افریقہ میں قومی ریاستوں کے قیام کے ذریعے آزادیوں کا اعلان کیا گیا۔ برصغیر میں بھی ملے جلے رجحانات اور تحفظات کے باوجود برطانوی راج کا خاتمہ ہوا اور اس خطے کے سیانوں نے ملک کی تقسیم کو مستقبل کے امن کے لیے ناگزیر جانا۔

بیسویں صدی کے وسط میں بھارت اور پاکستان کے قیام کا شاہی فرمان جاری ہوا۔ تو عجلت میں طے کی گئی دانستہ یا غیر دانستہ جغرافیائی حدود نے مذہبی عقائد کو ایندھن بنا کر آگ اور خون کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کی بنیاد فراہم کر دی۔ انسانی تاریخ کی ایک بڑی ہجرت اور نئی نویلی سرحد کے دونوں اطراف رام۔ رحیم اور وائے گرو کے نام پر کمزور ترین لوگوں کے قتل کا کاروبار ہر دو نئی ریاستوں کی بنیادوں میں شامل ہو گیا۔ قتل وغارت گری کا سیلاب تھوڑا تھما تو دونوں نومولود ریاستوں نے امن و محبت کے گہوارے کشمیر کا رخ کر لیا۔ اور مذہب کو ایک بار پھر گلگت سے جموں تک لاکھوں گردنیں اڑانے کے لئے استعمال کیا گیا۔

اقوام عالم کی نو بیاہتا دلہن متحدہ نے امن پر اسرار کیا اور کشمیری عوام کو انصاف کی یقین دہانی کروائی۔ انصاف کی طفل تسلیاں دونوں اطراف سے مزید دو جنگوں کی نظر ہو گئیں جس کے نتیجے میں لاکھوں جانوں کے ضیاع کے بعد تیسری قومی ریاست کا وجود عمل میں آیا۔ لیکن اصل مسئلے پر نفرتوں کا کاروبار ہنوز جاری ہے۔

سینتالیس کے بٹوارے کے بعد سرحد کے دونوں اطراف نصابی کتب سے لے کر زبانی کہانیوں تک کے سارے مواد کا خمیر نفرتوں سے اٹھایا گیا۔ یہاں تک کہ ملکی سلامتی کے لئے بنائے گئے عسکری سازوسامان کے نام بھی باہم متصادم کرداروں سے منسوب کیے گئے۔ اور نتیجے کے طور پر سرحد کے ایک طرف۔ اگنی اور پرتھوی کو زندہ کیا گیا تو دوسری طرف ابدالی اور غوری کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے موت کا سامان تیار کیا گیا۔

نفرت اور جنوں کے اس کاروبار میں سرحد کے دونوں اطراف انسانوں کو بھینٹ چڑھنے پر مجبور کیا گیا۔ اور تعلیم۔ صحت۔ روزگار۔ انصاف اور زندگی کا تحفظ جو آزاد ممالک میں شہریوں کا بنیادی حق تصور کیا جاتا ہے۔ اسے ثانوی حیثیت دے کر بڑھوتری کے خواب بیچنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہر دو اطراف سے کشمیر کو ہتھیانے کے چار عسکری معرکوں کی مشترکہ ناکامی کے باوجود اسی ناکام پالیسی کو شطرنج کی ہر نئی چال میں دہرایا گیا۔

پلوامہ کا حالیہ واقعہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ نفرت اور جنون کے اسی سلسلے کی ایک نئی کڑی ہے۔ جس کی بنیاد بٹوارے کے دنوں میں رکھ دی گئی تھی۔ لیکن اب کی بار نفرت کی یہ آگ بہت دور تک پھیل گئی ہے۔ اور اس کے بھیانک نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ سارے ہندوستان میں کشمیری ہونا۔ نفرت کی علامت بن گیا ہے۔ ہندوستان تو دور کی بات اپنے ہی وطن کے حصے جموں میں کشمیری مسلمان ہونا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

پلوامہ حملہ کس نے اور کیوں کیا بڑا سادہ سا عقدہ نہیں ہے اور اس حملے کے وقوع ہونے میں کون سے عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں۔ فائدہ کسے پہنچا اور نقصان کس کا ہوا؟ اس کا جواب تحقیق طلب ہے۔ لیکن اس بیچ ہونیوالے ردعمل کو دیکھتے ہوئے نفرتوں کے بیوپاری ایک بار پھر متحرک نظر آتے ہیں۔ تاکہ کشمیر ایشو کے نام پر جو معاشی اور سیاسی منڈی بہتر سال پہلے قائم ہوئی تھی۔ اپنے اپنے ٹھیلے پر لاشوں کے مزید ڈھیر لگا کر اپنے ذاتی سرمائے میں اضافہ کیا جائے۔ اس کاروبار میں فاتح کون ٹھہرے گا۔ شاید کوئی نہیں۔

لیکن اس نفرت اور جنون کے کاروبار میں شکست امن۔ آزادی اور مشترکہ ترقی کی ہو گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف امن پسند اور صلح جو افراد باہم یک زبان ہوکر اپنی اپنی راجدھانیوں پر براجمان سیاسی اور عسکری راجاؤں کو یہ باور کروائیں کہ لکسمبرگ۔ ویٹیکن اور

چھوٹے ممالک کی یورپی سرزمین پر موجودگی سے یورپ کے امن کو کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی فوج کے بغیر سوئٹزرلینڈ کا وجود فرانس اور جرمنی جیسے طاقتور ملکوں کے لیے کوئی خطرہ بن سکا ہے۔ اور نہ ہی کلیسا اور ریاست کو الگ کرنے سے یورپ کے آزاد ممالک کی عزت و احترام میں کوئی فرق آیا ہے۔ بات چیت کے ذریعے برصغیر کے عوام کو وہ مشترکہ خوشیاں اور دائمی امن لوٹایا جا سکتا ہے جو دنیا کے دیگر خطوں میں ہمارے عہد کے لوگ انجوائے کر رہے ہیں۔ وگرنہ سچل سرمست۔ بھلے شاہ۔ گورو نانک۔ گوتم بدھ۔ میاں محمد بخش۔ داتا علی ہجویری اور دیگر صوفیاء اور بھگتوں کی دھرتی پر آئیندہ نسلیں بھی نفرت کا کاروبار ہی کرتی رہیں گی۔ اور اس بیچ کہیں انسانیت کی سسکتی لاش ہی دم نہ توڑ جائے صاحب


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).