فاختاؤں نے گیت امن کے گاتے رہنا ہے!


زندہ رہنے کے لیے ہر کوئی طاقتور بننا چاہتا ہے اور طاقت دور کہیں محو استراحت ہے اس تک پہنچنا مشکل ہے مگر نا ممکن نہیں!

جو اڑ سکتے ہیں وہ وہاں تک با آسانی پہنچ سکتے ہیں ان کے دلوں میں خوف بھی ہے کہ اگر وہ ناکام ہو گئے طاقت کے جال میں الجھ گئے تو پھر کیا ہو گا۔ ؟

ابھی تک شاید ہی کوئی کمزور طاقتور بن سکا ہو گا مگر اب نیا سورج طلوع ہونے جا رہا ہے اس کی روشنی نا توانوں اور لا چاروں کے تن بدن میں ایک نئی توانائی بھر رہی ہے۔ وہ شعور کی دنیا میں قدم رکھ رہے ہیں اور جہاں شعور جا گتا ہے راستے اور منزلیں خود بحود اس کے قریب آ جاتے ہیں۔ !

زندگی ذلتوں اور اذیتوں سے نجات پا لیتی ہے۔ پھر ایک ایسا جہاں وجود میں آتا ہے جو ہر کسی کو بلا تفریق آسائشوں اور آسانیوں سے ہمکنار کرتا ہے۔

میری دھرتی کا ہر باسی بھی ایک ایسی دنیا کا متلاشی ہے جہاں سانسیں رک رک کر نہ چلتی ہوں۔ کوئی اس پر مسلط ہو کہ اسے خوف و خطر کے بیابانوں میں نہ دھکیلتا ہو؟

ابھی اسے وہ دنیا نظر نہیں آ رہی راہبروں نے اس کو پس دیوار کھڑا کر رکھا ہے وہ چیختا ہے چلاتا ہے کہ اسے آگے بڑھنے دیا جائے مگر عیار ذہانت اس کی کسی چیخ پر کان نہیں دھرتی وہ عیش و آرام کی وادیوں میں پڑی بہاروں سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ انواع و اقسام کے کھانوں کو اپنے معدے میں اتاررہی ہے۔ اور وہ جو اندھیرے سے اندھیرے تک مشقت کرتے ہیں سسک رہے ہیں۔ انصاف انہیں کون دلائے۔ شاید کوئی بھی نہیں جو بھی اس کا وعدہ کرتا ہے دعویٰ کرتا ہے وہ محض اپنے دامن میں خوشیاں بھرنے کے لیے وہ ان بے حالوں کو نحیفوں کو نزاروں کو دھوکا دیتا ہے؟

کیا یہ منظر بدلے گا؟

ہاں!

بدلے گا اب ضرور بدلے گا کیونکہ خواہشوں، خوابوں اور آسوں کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا!

ستموں کا دور آخر کار ختم ہو کر رہے گا۔

امن اور خوشحالی کے گلستان مہکیں گے۔

لوگوں کو بیداری نے جھنجوڑ دیا ہے۔

روشنیوں نے انہیں منزل کا راستہ دکھا دیا ہے۔

ڈر یہ بھی ہے کہ انہیں اندھیروں سے مانوس آنکھیں نہ ان کے سامنے آن کھڑی ہوں؟

تیاریاں ہو رہی ہیں کہ اجالوں کے مسافروں کو آگے بڑھنے سے روک دیا جائے؟

یہ منزل پر پہنچ گئے تو انہیں سہم سکڑ جا نا ہو گا۔

پھر ان کی جائیدادیں محل اور کاروبار بھی نہیں رہیں گے ان کی زندگیاں بے کیف و بے سرور ہو جائیں گی۔ لہٰذا کیوں نہ ان سے دو دو ہاتھ کر لیے جائیں؟

یہ نہیں ہو گا؟

ہونا ہوتا تو وہ تخت سے نیچے نہ گرتے۔

اب اس پر بیٹھنا بڑا مشکل ہے ان کو آشیر بار بھی کہیں سے ملتی ہے تو بے سود ہو گی ہاں! ذرا عوام میں اضطراب ہے وہ اپنی سانسوں کی مالا کے بکھرنے کا خطرہ محسوس کر رہے ہیں مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایک روز بہتر ہے کٹھن گزرے آئے روز کی اذیتوں سے ذلتوں سے!

اب یقین کے دامن تھام لینا چاہیے ان کا پیسا کچھ لوگوں کی آسود گیوں کے لیے نہیں ہو گا۔ سب کے لیے ہو گا۔ سبھی خوشحال ہوں گے۔ سبھی نہال ہوں گے۔ بس یہی بات ہے جو جانے والوں کے دل میں بیٹھ گئی ہے وہ رات بھر نہیں سوتے، جاگتے رہتے ہیں۔ حکمت عملیاں تیار کرتے ہیں آوازوں کو بلند کرنے کے لیے بھی سر جوڑتے ہیں مگر جوں جوں لمحے گزر رہے ہیں سہانی صبح کے آثار دکھائی دینا شروع ہو گئے ہیں۔ جسے دیکھ کر وہ اور بھی پریشان و بے چین ہونے لگے ہیں!

کہتے ہیں عوام نے دیکھ لیا حکمران نا کام ہو گئے یہ نہیں ملک چلا پائیں گے۔ انہی کو واپس لاؤ۔ ؟

لاؤ انہیں پھر واپس، جو خون پیتے رہے مجبوروں کا معذوروں کا اور بے چاروں کا پانی کی طرح خود پر کمزوروں کی دولت بہاتے تھے۔ بر باد کر دیا پورے نظام زندگی کو ”ہونجا“ پھیر دیا ملکی تجوری میں۔ اب مذاق اڑاتے ہیں حاکم وقت کا۔

اور حاکم وقت ہے کہ لوگوں کے غم میں گھلا جا رہا ہے۔ بہاروں پر نگاہ رکھ رہا ہے۔ اسے امید ہے کہ اس کا سفر کھلے پھولوں کے نگر میں داخل ہونے تک جاری رہے گا کوئی روکے گا تو مایوس ہو گا۔ بھلا خوشبوؤں کو کوئی روک سکا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

جتنا چاہے شور مچاؤ مگر چاند نے اپنی چاندنی بکھیر کر رہنا ہے اور ستاروں نے ٹمٹمانے سے نہیں رُکنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فاختاؤں نے نغمے محبت کے گاتے رہنا ہے تمہیں دُور کہیں زندگی مسکراتی نظر نہیں آ رہی کیا؟

یہ کیسے ممکن ہے لمحہ موجود ٹھہرا رہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بادشمال یونہی چلتی رہے؟ نہیں رُکے گا یہ سماں یہ صدائیں!

بادِ نسیم کو چلنا ہے چاہے وہ رُک رُک کر ہی کیوں نہ چلے!

اجڑے باغوں میں بہار آنی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نئی نئی کونپلیں پھوٹنی ہیں، شاخوں پر جوبن آنا ہے تب بلبلیں بھی ان پر بیٹھیں گی اور خوشی سے اُڑتی پھریں گی یوں خوابوں کی دنیا قوس قزح ایسے رنگوں میں لپٹ جائے گی!

کیوں محروم کرنا چاہتے ہو لوگوں کو ایسے منظر سے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).