اپنے حصے کی شمع!


احمد فراز نے کہا تھا

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

بلاشبہ آج کا پاکستانی معا شرہ ایک سماجی، معاشی اور فکری بحران کا شکار ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ یہ بحران شد ت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پا کستانی سماج کے فکری بحران کی عکاسی اس بلا تردید حقیقت سے ہوتی ہے کہ گزشتہ سات دہایوں میں ہم سوائے چند تخصیصی ناموں کے بیس کڑور کی آبادی سے قابل قدر تعداد میں عالمی سطح کے سائنسدان، مفکر، ماہرین سماجیات و معاشیات پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ ہماری یہ ناکامیاں نہ صرف ہمارے تعلیمی نظام بلکہ ہمارے مستقبل پہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ دنیا کی پہلی سو جامعات میں ایک بھی پاکستانی جامعہ نہیں۔

جہاں ایک طرف ہماری یہ اجتماعی زبوں حالی ہے وہیں دوسری طرف پاکستان دنیا کے ان چند سماجوں میں سے ایک ہے جہاں آبادی کا زیادہ حصہ نوجوانوں پہ مشتمل ہے۔ ایک ایسا تعلیمی ڈھانچہ جو دور جدید کے تقاضوں کے مطابق نوجوان نسل کی ضروریات پوری نہ کرے وہ لازماً دو طرع کے نتایج کا حامل ہوتا ہے۔ اول یہ کہ اس کی کوکھ سے ماضی پرست شدت پسند ی جنم لیتی ہے۔ اور دوئم ایک ایسی مفلوج نسل جو خود عتمادی سے عاری اور فکری طور پہ غلام ہوتی ہے۔ پس تعلیمی اداروں سے نکلنے والا یہ بحران چپکے چپکے پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

ہم آج تاریخ کے جس دوراہے پہ کھڑے ہیں ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کو وراثت میں کیا دے کر جا رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کی قبر کھود رہے ہیں؟ یا ہم اپنے بچوں کے ہاتھ میں تھمانے کے لیے وراثت میں ایک کاسہ گداگری دے کر جا رہے ہیں؟

یہی وہ سوال تھے جو ایک عرصے سے خیبر پختون خواہ کے مختلف کالجوں اور جامعات کے اساتذہ کے ذہنوں میں انفرادی سطح پہ چبھ رہے تھے۔ یہی وہ سوالات تھے جو ان اساتذہ کو آخر کار ایک پلیٹ فارم پہ جمع کرنے کا سبب بنے۔

گزشتہ سال مارچ میں سوات کے جہانزیب کالج میں ایک کانفرس میں طلبا سے عدم برداشت کے موضوع پر بات کرنے کا دعوت نامہ ملا تو مجھے پہلے تو خوشگوار حیرت ہوی کیونکہ کالجز کی سطح پر کانفرنسز منعقد کرانے کی روایت کم از کم پختون خواہ میں ناپید ہے۔ بعد ازاں اس کانفرس کے منتظمین سے ملاقات پر مجھے پتا چلا کہ یہ گزشتہ کچھ مہینوں میں تیسری کانفرنس ہے جو یہ لوگ رضاکارانہ طور پر کروا رہے ہیں۔ پہلی پشاور میں، دوسری ڈیرہ اسمعیل خان میں منعقد کی جا چکی تھیں۔ اس رضاکار تنظیم کا نام پروفیسرز اسوسی اشن فار سٹوڈنٹ سروسز ہے۔ اور گزشتہ ایک سال سے یعنی سوات کی کانفرنس کے بعد سے میں بھی ان لوگوں سے جڑ چکا ہوں جو اپنے حصے کی شمع جلا کر ایک بہتر سماج کی تشکیل اور تعلیمی اداروں میں تنقیدی اور علمی سوچ کو پروان چڑھانے کی اپنی سی سعی کر رہے ہیں۔

اس تنظیم کے بنیادی مقاصد کالجوں اور جامعات کے اساتذہ میں ربط پیدا کرنا تا کہ وہ نہ صرف ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں بلکہ اپنی تحقیقی سرگرمیوں میں معاونت بھی کر سکیں، اور ملکر اپنی فکری سطح کو بلند کرنے کی کوشش کرنا تا کہ انفرادی سطح پہ کلاس روم اور طریقہ تدریس میں وہ اصلاحات لائی جا سکیں کہ جس سے طلبا میں سوچنے، سوال پوچھنے، اور تنقیدی نظر سے دیکھنے کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جا سکے۔ طلبا کے درمیان ایک ربط پیدا کرنا تا کہ وہ ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں اور علمی سفر میں ایک دوسرے کے لئے معاون و مددگار ثابت ہو سکیں اور باہم مکالمے کی روایت کے ذریعے ایک پرامن، جمہوری، اور مساوات پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ساتھ اپنی تخلیقی و تحقیقی صلاحتیوں کو مثبت انداز میں استعمال کرنے کے ہنر میں مہارت حاصل کر سکیں۔

ان مقاصد کی تکمیل کے لیے ڈیرہ اسمعیل خان سے لے کر ہزارہ تک پختون خواہ کے مختلف کالجز اور جامعات کے بہت سے اساتذہ جن میں خواتین و حضرات دونوں شامل ہیں جڑ چکے ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران دو قومی سطح کی کانفرنسز، ایک سوات اور ایک ایبٹ آباد میں، ایک بین الاقوامی کانفرنس ہری پور میں منعقد کرانے کے ساتھ ساتھ آٹھ ایک روزہ سیمینارز، ایک فن تحقیق پر دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد صرف اپنے وسائل پر کیا جا چکا ہے۔ تحقیقی سرگرمیوں کے فروغ اور سائنسی طرز فکر کو اجاگر کرنے کے لیے ہماری جدوجہد صرف اپنے حصے کی شمع جلانے کی ایک کوشش ہے۔

گزشتہ ایک سال کے دوران ہمارے مختلف کالجز اور جامعات کے طلبا سے ہونے والے علمی روابط نے ہمارے حوصلوں کو جہاں مزید جلا بخشی ہے وہیں ہماری آنکھوں پہ یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں کا ایک جوار بھاٹا ہے جو ہمارے فرسودہ نظام تعلیم کی بدولت یا تو ماضی پرست شدت پسند ی اور شخصیات پرستی کی نظر ہو رہا ہے یا خود اعتمادی سے عاری مفلوج فکر کے حامل ایسے نوجوان پیدا کر رہا ہے جو اپنے سماج کیا اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہیں۔ یہ صورتحال ہر اس فکری روایت سے تعلق رکھنے والے افراد سے اس جدوجہد میں ہمارے شانہ بشانہ چلنے کی متقاضی ہے جو ایک ترقی پسند، خوشحال، پر امن، برابری پر مبنی اورہر طرح کے استحصال سے پاک معاشرے کا خواب دیکھ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).