درویش نامہ


پاکستان کا مطلب کیا، مک مکا، مک مکا۔

ﷲ یہ میں نہیں کہا۔

یہ تو ایک کتاب کچھ دن قبل موصول ہوئی جس کا نام ہے ”درویش نامہ“ جس میں درویشی کا رنگ شگفتہ شگفتہ ہے۔ اور انتساب ”درویش“ کی مونث ”درویشی“ کے نام ہے۔ آئیے کتاب سے غزل سناتی ہوں۔

ہم کہ ٹھہر ے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد

پھر کریں گے ”مک مکا“ کتنی ملاقاتو ں کے بعد

مک مکا کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نا تھے کرو بیاں

دو ہی لمحے زندگی میں مجھ پہ گزرے ہیں کھٹن

اک ترے مک مکا سے پہلے اک تیرے مک مکا کے بعد

پا کستان کا مطلب کیا، مک مکا و مک و مکا و مک مکا

”اؤ ہو میں بھی کس کواور کیا سمجھارہا ہوں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اونٹ کے آگے وائلن بجارہا ہو۔ “

”پروردہ خاروخس سن۔ دستہ گلوں کا ہو یا فوجیو ں کا دونوں ہی خطر ناک ہیں۔ فوجی تو پھر بھی محاصرہ اٹھا لیتے ہیں ہیں۔ لیکن گلدستہ جہاں پڑاؤ ڈال دے، چھاؤنی تعمیر کیے بغیر نہیں رہتا اور چھاؤنی کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ ایک مرتبہ تعمیر ہو جائے تو ہٹ دھرمی سے اسی جگہ قائم رہتی ہے۔ مقام نہیں بدلتی، ہاں فوجی بدلتے رہتے ہیں۔ تیرا پاکستان ایک چھاؤنی ہی تو ہے، کبھی سویلینز کی چھاؤنی بن جاتی ہے۔ کبھی فوجیوں کی اور کبھی غیر ملکیوں کی۔ “

”تجھ سے سمجھ دار تو تیرا بھائی ہے، فوج میں رہتے ہوئے بھی عقل و دانش کی ایسی باتیں کرتا ہے کہ سویلینز تک کو رشک آتا ہے۔ حساس نو عیت کے ایک پہاڑی مورچے پر ایک بڑا فوجی افسر معائنے کے لئے پہنچا۔ ابھی وہ اپنے ماتحتو ں سے باتیں ہی کر رہا تھا ایک گولی عین اس کے سر کے اوپر سے گزر گئی۔ اس نے حیرت اور تشویش سے نزدیک کھڑے ماتحتوں کو دیکھا اور پوچھا۔

”یہ گو لی کہا ں سے آئی؟ “

”قریب کھڑے ایک افسرنے مودبانہ کہا“

”کیا؟ “

اس نے دوسرے افسران کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا۔

دوسرے افسر نے جلدی سے کہا۔

”سر دشمن کا ایک سپاہی سامنے والے مورچے سے اکثر گولیاں برساتا رہتا ہے“

”تم اسے مار کیوں نہیں دیتے“

تیرے بھائی نے آگے بڑھ کرکمال ِ ہنر مندی سے جواب دیا۔

سر اگر اسے مار دیا تو وہ لوگ کوئی اچھے قسم کا نشانچی وہا ں لا کر بٹھا دیں گے، اور وہ روزانہ دو چار پھڑکائے گا۔ یہ تو دو سال سے گولیاں مار رہا ہے آج تک کسی کے نہیں لگی۔ ”

”تو نا کردارکا غازی ہے نا گفتار کا، تیرے نزدیک غازی وہ لڑکیا ں ہیں جو غازہ لگاتی ہیں۔ “

”تو بغیر اعراب کی عبارت ہے، تو کیا جانے صرف زیر زبر کے فرق سے انسان کس قدر اوپر نیچے ہو جاتا ہے۔ “

”زندگی میں ایک بارش ایسی ضرور ہو تی ہے جو ساری زندگی برستی رہتی ہے۔ “

”مجھ میں بجلی بن کر داخل ہو جاؤ، میں بادل بن کر برسنا چاہتا ہو ں“

”مرزا صاحب کے گھر گیا۔ مرزا صاحب کہنے لگے لڑکے نے انٹر کر لیا ہے، تمام مضامین میں اچھے نمبروں سے پاس ہوا ہے۔ میں نے قریب بلایا، شاباش دی اور کہا بیٹا ذرا ”کار ہائے نمایاں“ کو جملے میں تو استعمال کرو۔ سوچنے میں بہت کم وقت لیا۔ کہنے لگے“ خالد بن ولید کے شورومز میں کار ہائے نمایاں فروخت کی جاتی ہیں ”

”یعنی لاہور۔ باہر آنے والے والو ں پر لاہوریت اس قدر جلد غلبہ کرتی ہے کہ وہ حیران رہ جاتے ہیں۔ دراصل لاہوریت بوریت کا متضاد لفظ ہے اور وہا ں ان ہی معنو ں میں پڑھایا جاتا ہے۔ “

”پطرس مرحوم نے لاہور کاصرف جغرافیہ ہی لکھا، کاش وہ لا ہور کی فزکس، کیمسٹری، حساب، الجبرا، جیومیٹری، زولوجی اور بوٹنی بھی لکھتے تو کتنے رنگا رنگ گوشے نمایا ں ہوتے“

یہ سب مصنف کی سوچ کے شاخسانے میں، میرے الفاظ نہیں ہیں، لہذا میں یہ کہہ سکتی ہو ں کہ ”ادارہ اور راقم“ مصف کی سوچ کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہ کتاب بھرے ہوئے پیٹ کے بعد میٹھا کھا کر، کا فی کے مگ ساتھ پڑھنے والی ہے، بھوک میں یہ اوپر سے گزر جائے گی۔ مربع صورت کتاب دیدہ زیب ہے۔ چھوتے ہی آرٹ کی مہک بکھر جاتی ہے۔ اگر کتاب نا بھی پڑھیں تو دیکھ کر دل باغ باغ ہوجاتا ہے، کیو نکہ یہ روایتی کتاب نہیں ہے۔ نا تحریر میں نا تصویر میں۔ یہ ایک خاص ٹرانس میں لکھی شگفتہ تحریر ہے۔

اقبال نظر کا ایک اور کار نامہ ”گلزار نامہ“ ہے جو ملکی سرحدوں کو پھلانگ کر بھی داد وصول کر چکا ہے۔

”جو کہو ں گا سچ کہو ں گا۔ سچ کے علاوہ بھی بہت کچھ کہو ںگا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).