سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے، فیض احمد فیض اور استاد منگو


ملک کی ایجنسیاں اور ادارے نفرت پھیلانے والی ایک تنظیم کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔۔۔ الیکشن کمیشن نے نفرت پھیلانے والی تنظیم کو رجسٹر تو کر لیا مگر ذرائع آمدن کی تصدیق نہ کر سکا جو قانونی تقاضا تھا۔۔۔ پیمرا نفرت پھیلانے والے اور شر انگیز گروہ کی خبروں کی ترسیل کے حوالے سے اپنا قانونی فرض ادا نہ کر سکا۔۔۔ مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز بشمول ڈان اور جیو کی نشریات فوجی چھاؤنیوں اور ڈی ایچ اے کے علاقوں میں روک دی گئیں، آزادی رائے اور خبر جاننے کے حق کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کیوں ہوئی؟ پیمرا جواب دے۔۔۔ آئین کسی فوجی کو ملکی سیاست پر تبصرہ کرنے اور سیاسی جماعتوں میں امتیاز کرنے کا حق نہیں دیتا، سیاست میں ایجنسیوں کی مداخلت غیر قانونی ہے، اس سیاسی مداخلت پر کارروائی کی جائے۔۔۔ فیض آباد دھرنے کی حمایت کرنے اور نفرت انگیز مہم کا حصہ بننے والے بعض لوگ اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز ہیں، مقام افسوس ہے۔

یہ وہ باتیں ہیں جو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے 6 فروری کو فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کیں۔ باتیں ذرا سخت ہیں اس لئے اگر آپ چاہیں تو ان پر ایک خط تنسیخ کھینچ دیں اور یوں سمجھیے کہ یہ باتیں میری ا س تحریر کا حصہ ہی نہیں۔ مگر آپ کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں اور بالکل بھی ممکن نہیں۔ یہ سچ ہے اور وہ سچ جو منصف کے اعلیٰ عہدوں پر فائز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اورجسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے بیان کیا ہے۔ اس سے سیاسی جماعتوں اور اداروں کو اپنی اپنی حدود وقیود میں رہنے کے ساتھ ساتھ انہیں ان کی آئینی و قانونی ذمہ داریوں سے کماحقہ آگاہ کیا۔ سپریم کورٹ نے اپنا فرض ادا کر دیا، آگے کوئی اس کی باتیں کو مانے یا نہ مانے۔

یہ باتیں پاکستان تحریک لبیک کی طرف سے 2017 میں جڑواں شہروں راولپنڈی، اسلام آباد کے درمیان فیض آباد کے مقام پردیئے گئے دھرنے کے بارے میں سپریم کورٹ کے اہم ترین فیصلے میں کی گئی ہیں جو بیس بائیس روز تک جاری رہا۔ اس وقت مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اوریہ دھرنا وفاقی وزیر قانون زاہد حامد و دیگر کے خلاف کارروائی کروانے کے لئے دیا گیا جنہوں نے مبینہ طور پر ختم نبوت کے قانون میں چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی۔ اس دھرنے کا خاتمہ یوں ہوا کہ وزیر قانون کو مستعفی ہونا پڑا، ایک معاہدہ سائن ہوا اور دھرنے کے شرکأ کو ایک ایک ہزار کے نوٹ بطور واپسی کرایہ دیئے گئے اور سب ٹھنڈے ٹھنڈے اپنے اپنے گھروں کو سدھار گئے اس نیت اور امید کے ساتھ کہ کسی روز پھر ضرورت پڑنے پر اپنی قوت ایمانی کا مظاہرہ کریں گے اور پھر ایسا ہوا کہ دوبارہ ان کے جوش ایمانی کی ضرورت پڑ بھی گئی۔ مگر ان شرکأ کو کیا خبر تھی کہ 6 فروری بھی آنی ہے اور خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کی دھرنا سیاست کی بنا پر نجانے کس کس پر سپریم کورٹ برہم ہو گی۔

تحریک لبیک کا اب کے بار ایجنڈااور مقام احتجاج مختلف تھا۔ سپریم کورٹ نے عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو عدم ثبوت اور کمزور شہادت کی بنا پر توہین رسالت کے مقدمہ میں بری کر دیا تو خادم رضوی اور افضل قادری کافی برہم ہوئے کہ توہین رسالت ثابت کیوں نہیں ہوئی۔ ان کی کال پر ان کے پیرو کاروں نے لاہور مال روڈ پر ڈیرے ڈال دیئے۔ ان قائدین نے حساس ادارے اور عمران خان کو نہ بخشا اور ویڈیو پیغام جاری کیا کہ ملک میں بہت بڑی آفت آنے والی ہے، اسلام اور پاکستان خطرے میں آ گئے ہیں، سب عاشقان دین ڈنڈے لیکر گھروں سے باہر نکل آئیں اور ملک کی باگ ڈور سنبھال لیں اور جن کے پاس ڈنڈے نہیں وہ بس جذبہ ایمانی ساتھ لیکر نکل آئیں، حالات کافی مخدو ش ہو چکے ہیں۔

یہ دھرنا اور احتجاج بھی ایک معاہدے کے نتیجے میں ختم ہوا مگر اصل بات ختم نہ ہوئی۔ راتوں رات ویڈیو پیغام جاری کرنے والوں کو اٹھا لیا گیا اور تادم تحریر تحریک لبیک کے رہنما جیل میں ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ اسلام اور پاکستان دونوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

 فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے بعد اصغر خان کیس بھی نمٹا دیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد بناتے وقت فوجی ادارے کی طرف سے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم غیر قانونی فعل ہے۔ یہ سیاست میں دخل اندازی ہے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف فوجی قانون حرکت میں لایا جائے۔

سپریم کورٹ کے ان دونوں فیصلوں کو سنجیدہ جمہوری حلقے بنظر تحسین دیکھ رہے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کہیں ان فیصلوں پت عمل درآمد کو نظر نہ لگ جائے۔ نظر لگنے کا خدشہ اس لئے لاحق ہے کہ اس سے پہلے بھی اسی عدالت نے کئی اہم فیصلے دیئے جن سے لگا کہ اب جمہوریت دشمنوں کو شکست ہوگئی، دھند چھٹ گئی اورجمہوریت کی گاڑی آگے بڑھتی رہے گی۔ مثلاً بھٹو کو پھانسی ہوئی، بہت غلط ہوا کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 109 کے تحت منتخب وزیر اعظم کو سزائے موت سنائی گئی۔ پھر اسی عدالت کے ارکان نے کئی سال بعد تسلیم کیا کہ ہم سے غلطی ہو گئی۔ اسی سپریم کورٹ نے نواز شریف کی اسمبلی بحال کی اور یہی عدلیہ ہے جس میں اتنی جرات پیدا ہوئی کہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ بنا۔ حالیہ دونوں فیصلوں کو بھی جمہوریت کو پٹڑی پر ڈالنے کیلئےکم اہم نہیں جاننا چا ہیے۔

پاکستان میں ہماری بنتی بگڑتی سیاسی و آئینی تاریخ سے ہماری امید اور ناامیدی دونوں جڑے ہوئے ہیں۔ بالکل ایسے جیسے فیض احمد فیض کی نظم ’تنہائی‘ میں نظر آتا ہے۔ شاعر امید اور ناامیدی کے درمیان کے کسی انتہائی ذیت ناک تجربے سے گزر رہا ہے۔

    پھر کوئی آیا دل زار، نہیں، کوئی نہیں

    راہرو ہو گا، کہیں اور چلا جائے گا

    ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار

    لڑ کھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ

    سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار

    اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ

 اور جب شاعر اس اذیت ناک صور ت حال کو مزید سہہ نہیں سکتا اور اندر سے شکست و ریخت سے دوچار ہونے لگتا ہے تو کہتا ہے:

    گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ

    اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو

    اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

فیض اپنے دروازے پر انقلاب کی دستک کی آرزو لئے پیوند خاک ہوا۔ رجائیت پسندی ترقی پسند شاعر کی خوبی ہوتی ہے، کیا کیا جائے۔

سعادت حسن منٹو کے افسانے ’نیا قانون‘ کا مرکزی کردار منگو کوچوان ملک میں نیا قانون بننے پر بڑا خوش اور پرجوش تھا۔ یہ متحدہ ہندوستان میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کی بات ہے۔ منگو کو امید بندھ گئی کہ اب انگریزوں کا زمانہ لد گیا اور یکم اپریل سے ملک میں یہاں کے عوام کی اصل حکمرانی کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ استاد منگو کا دما غ ایک انگریز ہی نے ٹھکانے لگا دیا۔ منگو بیچارہ بہتیرا کہتا رہا کہ اب نیا قانون آ گیا ہے، نیا قانون آ گیا ہے مگر اسے حوالات میں دھکیل کر بتایا گیا کہ قانون وہی پرانا ہے۔

فیض ا حمد فیض سے ایک روایت منسوب ہے۔ ان کے احباب میں سے کسی نے پوچھ لیا ’فیض صاحب، پاکستان کا کیا بنے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا’ بھئی، میرے خیال میں تو یونہی چلتا رہے گا۔ ‘

 اب پیپلز پارٹی کے رہنماخورشید علی شاہ نے فیض آباد دھرنا کیس پر فیصلے کو پارلیمنٹ میں بحث کے لئے لے جانے کا اعلان کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بقول فیض’یونہی چلتا رہے گا‘ یا استاد منگو کی طرح ہمارے ساتھ بھی حسب معمول اپریل فول منایا جاتا رہے گا۔ 71 برس گزر گئے اب کچھ بنیادی باتیں طے ہو ہی جانی چاہئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).