پہلی لڑکی – عصمت چغتائی کا رومانی افسانہ


”تو آپ نے میرا ٹھیکہ لیا ہے؟ “
”ایں؟ “ چچا سٹپٹائے۔
”یعنی کیا مطلب؟ “

”بھئی، وہ ہم نے سنا ہے کہ تم۔ یعنی کہ تم اور۔ ہمارا مطلب ہے حرمہ اور لاحول ولاقوۃ۔ اماں افٗضل میاں تم ہی تو کہہ رہے تھے کہ ۔۔۔۔“
”آپ کو مریم بی بلاتی ہیں“۔ اس نازک موقعے پر بیرے نے آکر عزت رکھ لی اور منصور ”معاف کیجئے گا“ کہہ کر باہر آگیا۔

”منصور میاں ہربات مذاق میں اڑا دیتے ہیں، آخرنوکری سے کیوں انکار ہے؟ “
”انکار تو نہیں“ منظور خود کو نوابوں کے نرغے میں دیکھ کر سٹپٹا گیا۔

”مل جائے تو کرو گے؟ “۔ حیدر چچا بولے۔
”آ۔ آ۔ جی ہاں“۔
”بھئی نوکری حماقت ہے، پیسہ بنانا ہو تو بزنس کرو“۔
”خاص طور پر آپ کی بزنس“۔ رشید نے دبی زبان سے کہا۔

”یار رہنے دو جھاڑ کاکانٹا بن کر لپٹ جائیں گے“۔ منظور نے کہنی ماری۔ پھر حیدر چچا سے کہا:
”جی آپ بالکل درست فرماتے ہیں“۔
”اور تم چاہو تو انگلینڈ کی نیشنلٹی دلوا سکتے ہیں تمہیں“۔

”چچا آپ کیوں انگلینڈ جا کرنہیں رہتے؟ “۔ رشید نے پوچھا۔
”یہ تمہار ی چچی اماں ہائے توبہ مچانے لگتی ہیں“۔
”اے ہے کون اتنی دور جا کے مٹی پلید کرائے۔ مرو تو فرنگیوں کے ہاتھوں عاقبت خراب ہو“۔ چچی نے تشریح کی۔

”بیگم اس کی تم چنتا نہ کرو، ہم انشاء اللہ پلین چارٹر کرا کے تمہاری میت لے آئیں گے“۔
”خدا نہ کرے، مریں اس کے دشمن۔ توبہ! “ اکابی بگڑنے لگیں۔

”اماں بزنس۔ ڈیم بورنگ۔ بنیا پن“۔ منجھلے ماموں اپنی نویلی انگریز بیگم کے ساتھ آتے ہی میدان میں کود پڑے۔ پچھلے سیزن میں شملہ گئے تو ہتھے چڑھ گئیں، یہ کہیے یہ ان کے ہتھے چڑھ گئے۔ وہ ان کے عزیز ترین دوست مسٹر رب کی بیوی تھیں۔ گرمیوں میں انہیں تو توڑ کرنا تھے۔ بیگم کو شملے بھیج دیا۔ وہ منجھلے ماموں یعنی لیفٹیننٹ مختار کے ہاں ٹھہریں۔ دل ہی تو تھا۔ آگیا، منجھلی ممانی کو طلاق دینی پڑی اور ایڈنا رب فی الحال تو ایڈنا مختارہیں۔

”مرد آدمی کے لیے توبس ایک ہی جوب ہے۔ ملٹری“۔ منجھلے ماموں نے منصور کی پیٹھ پر ایک دھپ مارا۔
”یار میں چلا“۔ منصور نے چپکے سے رشید سے کہا۔

”میاں وہ باڈی نکلے گی چند سال میں کہ کیا بتائیے۔ کیاسال آم توڑنے کی مگھی بنے ہوئے ہو“۔ انہوں نے اس بھونڈے پن سے منصور کے لمبے قد کا مذاق اڑایا کہ حرمہ بٹیا جل کر رہ گئیں۔ بات آگے بڑھتی مگر اشرف مختار کو اسی وقت اس کمرے میں لے جانے کے لیے آگئے جہاں پینے پلانے کا سلسلہ چل رہا تھا۔ رشید اور منصور بھی کیوں چوکتے۔ وہاں بھی بحث چلتی رہی۔ دو تین پیک کے بعد منصور نے کہا۔

”اچھا صاحب میں نوکری کے لیے تیار ہوں، فرمائیے کتنے لوگو ں کو آپ نوکریاں دلواتے ہیں“۔
”شرم نہیں آتی! “ حرمہ نے آستین پکڑ کر برآمدے میں کھینچ لیا۔

”مگر مریم باجی“۔
”نہیں۔ میں نے بلایا تھا“۔
”کیوں؟ “
”ذرا قمیص دیکھئے کیا روشنائی سے بیل بوٹے چھاپے ہیں“۔
”صبح ہی تو پہنی تھی۔ پن لیک کر نے لگا“۔

”اور کل اسے رشید بھائی جان پہن چکے تھے۔ اتنے لوگ جمع ہیں آپ کو اچھا لگتا ہے کہ لوگ مذاق اڑائیں کسی کا۔ رشید کی گودڑ الماری میں سے اس نے ایک قمیص نکال کر دی۔
”جلد ی سے بدل کر آجائیے“۔
”جو حکم محترمہ کا“۔ منصور بڑے اچھے موڈ میں تھا۔

اوپر اپنے کمرے میں مریم سسکیوں سے رو رہی تھی انیس ان کی انگلیاں چوم کر سمجھا رہے تھے۔ ”ڈارلنگ بے بی، دنیا داری تو نباہنا ہی پڑے گی ویسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تم میری ہو اور میری رہو گی“۔

”مجھے ڈر لگتا ہے انیس“۔
”اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے ہنی“۔
”اسے پتا چل گیا تو؟ “ اس نے گھٹی ہوئی آواز میں کہا۔

”بڑا گاؤدی سا ہے، اسے کیا پتا چلے گا؟ دیکھا نہیں تم نے کس بری طرح گھوررہا تھا تمہیں؟ “
”گدھا کہیں کا! “ مریم غصے سے کانپ اٹھی۔

”ارے نہیں، غریب گھر کا لڑکا ہے بے چارا، اس نے تم جیسی قتالہ عالم لڑکیاں کہاں دیکھی ہوں گی۔ تمہارے پیر دھو دھو کر پیئے گا“۔
”میں زہرکھالوں گی۔ مجھ سے برداشت نہ ہوگا“۔

”میری جان کیوں رائی کا پہاڑ بنائے دیتی ہو“۔
”میں رنڈی نہیں ہوں، آج اس کی کل دوسرے کی“۔

”ہائے سویٹ بے بی، حالات تم جانتی ہو، ورنہ ذرا سوچو میرے دل پر کیا گزررہی ہے! مصلحت اسی میں ہے“۔
”توآپ طلاق کیوں نہیں لے لیتے! کیا فائدہ ڈھونگ رچانے سے؟ “ مریم جل گئی۔

”کاش طلاق لے سکتا۔ ہماری سول میرج ہوئی تھی، دوسرے میرے اوپر اتنا قرض ہو گیا ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔ یہ قرضہ کسی طرح چک جائے پھر میں کوئی نوکری تلاش کروں گا پھر تم کھلے بندوں میری ہو جاؤ گی۔ دوسری صورت کے لیے بھی تم تیار نہیں ہوئیں۔ ڈاکٹر میرا دوست ہے مگر اب تو بہت دیر ہوگئی میری جان“۔

”آپ مجھ سے بور ہو چکے ہیں پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں“۔ مریم رونے لگیں۔
”یہ تمہارا وہم ہے بے بی“۔

”تو پھر وہ لڑکی جس کے ساتھ آپ گھومتے پھرتے ہیں! “
”اوہ تم تو حد کرتی ہو بھئی بزنس کے سلسلے میں“۔

”میں خوب جانتی ہوں آپ کی بزنس“۔
”دیکھو ڈارلنگ مجھے سمجھنے کی کوشش کرو۔ تم تو ہماری بیگم سے بھی چار ہاتھ آگے نکل گئیں۔ اس نے تو میرے اوپر کبھی پہرے نہیں بٹھائے“۔

”وہ خود جو ہرجائی ہیں، آپ کو کس منہ سے منع کر سکتی ہیں“۔
”میں بھی توتمہیں منع نہیں کرتا، جانی مجھ سے زیادہ براڈ مائنڈڈ انسان تمہیں کہیں نہیں ملے گا“۔

”ہاں، آپ میرے دولہا ڈھونڈ کر لائے ہیں“۔
”مگر بے بی ہنی کوئی فرق نہیں پاؤ گی تم۔ آئی ایم رئیلی میڈ اباؤٹ یو۔ اچھا اب من بھی جاؤ“۔
انیس نے اتنا گدگدایا کہ وہ ہنس پڑی۔

آج الٹی گنگا بہہ رہی تھی۔ مئے ارغوانی اپنا رنگ دکھا رہی تھی۔ بجائے حرمہ کے آج منصور کی نظریں اس کا پیچھا کر رہی تھیں۔ ان نگاہوں میں اسے اپنی فتح کا عکس نظر آرہاتھا۔ آج اس نے نہایت چست قمیص اور تنگ موری شلوار پہنی تھی۔ فاختہ کے پروں جیسا شفان کا دوپٹہ نام چار کو کندھوں پر پڑا تھا۔ ساڑھے تین پانچ سینڈل پہن کر وہ منصور کے کان کی لوتک پہنچ رہی تھی۔ اس نے کئی بارانجان بن کر منصور سے اپنے کو ناپا۔ کس قدر موزوں جوڑی تھی۔

چیدر چچا منصور کے پاس بیٹھے بڑے زور شور سے کوئی بالکل بے تکی بحث کررہے تھے۔ جب ان پرچڑھنے لگتی تھی وہ ہر بات کی کاٹ کرنے لگتے تھے، حتیٰ کہ خود اپنی کاٹ شروع کردیتے تھے۔ کبھی ایک دم کمیونسٹوں کے خلاف محاذ بنا لیتے اور منصور یا رشید کو گھیرکر الجھنے لگتے، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ دنیا بھر کے کمیونسٹوں کی بے عنوانیوں کے یہی جواب دہ ہیں۔ اسوقت ان کے لہجے میں ہائیڈروجن بم گرجنے لگتے۔ کبھی ایک دم پلٹا کھا جاتے اورخود کمیونسٹوں سے بھی زبردست کمیونسٹ بن جاتے کیونکہ کسی زمانے میں وہ بال بال سرخ ہوتے بچے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3