پہلی لڑکی – عصمت چغتائی کا رومانی افسانہ


”ارے ماں تم لوگوں سے بہتر کمیونزم تو ہمارے دفتر میں موجود ہے۔ پچھلے مہینے ہمارے چپراسی کی لڑکی کی شادی تھی۔ ہاتھ جوڑ کرکھڑا ہوگیا کہ سرکار صرف دو منٹ کے لیے آجائیے۔ میری لاج رہ جائے گی۔ بس جناب ہمار بیگم کا دل موم کا تو ہے ہی پگھل گیا۔ فوراً ساڑھی لے کر پہنچی۔ حالانکہ تحفے صرف برابر والوں کو دیے جاتے ہیں۔ مگر میں نے کہا: کیا چپراسی انسان نہیں؟ اور پھر مسلمان بھی ہے۔ کیا نیچ لوگوں کے دل نہیں ہوتا؟ بیگم تم ضرور تحفہ دو، خیر صاحب گئیں بیگم اور دیاتحفہ“۔

منصور اور رشید سمجھ گئے کہ ضرور یہ وہی ساڑھی ہوگی جس کے بارے میں مریم اور حرمہ کہہ رہی تھیں پرانے گوٹے والے نے دس روپے لگائے تھے۔ چچی بیگم یوں ٹھاٹ سے نئے ڈبے میں سجا کر لے گئیں کہ براتی دنگ رہ گئے۔

منصور، چچا سے باتیں کرنے میں منہمک تھا مگر اس کے ہاتھ ان کے پچھے سے گزر کر ان کے دوسرے بازو پر بیٹھی ہوئی حرمہ کے ریشمی بالوں میں بھٹک رہا تھا۔

”چاند خان چپراسی خوشی کے مارے پاگل ہوگیا۔ میرے پیر پکڑ لیے غریب نے، بتائیے صاحبزادے اسلام میں کمیونزم میں کیا فرق ہے؟ اللہ پاک فرماتا ہے اپنے غلاموں کے ساتھ اچھاسلوک کرو“۔ چچا ہانک رہے تھے۔

”جی بجا فرماتے ہیں آپ“۔ منصور سوچے سمجھے جواب دے رہا تھا۔ اس کی روح اس وقت اس ہاتھ میں کھینچ آئی تھی جو حرمہ کے بالوں سے پھسل کرگردنپر لرز رہاتھا وہ دل ہی دل میں کہہ رہا تھا قبلہ میں قطعی آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار ہوں مگر خدارا ایسے گردن موڑئیے کہ حرمہ ڈر کر دور ہو جائے۔

”اللہ پاک فرماتا ہے جو دنیا میں میرے نام پر ایک درم دے گا اسے عقبیٰ میں ستر ہزار درہم ملیں گے۔

”سودا برا نہیں“۔ منصور نے بڑی فرمانبرداری سے کہا۔ حرمہ نے اس کی انگلی میں باریک سی چٹکی لی اور وہ اچھل پڑا۔ چچا چوکنے ہوگئے۔ حرمہ چھپ سے اٹھ کر بھاگی انہوں نے گردن موڑی تو منصور بھی غائب تھا، بے چارے حیران رہ گئے۔ انہیں شبہ بھی نہ تھا کہ یہ دونوں انہیں ٹٹی بنائے پیٹھ پیچھے چوہے پکڑ رہے تھے۔

کسی نے دونوں کو پائیں باغ کی طرف جاتے نہ دیکھا۔ سوائے فرخندہ بانوکے، ان کی آنکھیں بھیگ گئیں او دل نے ٹھیس محسوس کی یا ایک جھلک چھمن میاں نے دیکھی جو دیر سے آنے کی معذرت کررہے تھے۔ اگر چھمن کبھی چوری چوری اس کی طرف دیکھتے بھی تو یوں جیسا چوہا بلی کو دیکھتاہے۔ حرمہ ان سے چڑی ہوئی بھی تھی مگر آج تووہ بڑے بانکے ترچھے لگ رہے تھے۔ جسم پر بوٹی بھی آگئی تھی۔ بال بھی برل کر یم لگا کر سنوارے گئے تھے۔ ضرور حلیمہ نے بنا سنوار کر سسرال بھیجا ہوگا!

سارے خاندان کو معلوم تھا کہ حلیمہ چھمن پر دو آتشہ بن کر چھا گئی ہے۔ چھمن کی دلہن کو بڑے تیر و تفنگ استعمال کرنے پڑیں گے۔ انہیں تو دنیا میں سوائے حلیمہ کے دوسرا نظر ہی نہیں آتا۔ کیا وحشت ہے! کیاسرور ہے! پانی کا سا لطف کہ روز پینے کے بعد بھی ہمیشہ کے لیے پیاس نہ بجھتی۔

چھمن نے آج بے باکی سے حرمہ کی طرف دیکھا تھا۔ ان کی نظروں میں منگیتر کی حیثیت سے کوئی پیغام نہ تھا۔ برادرانہ دلچسپی کا اظہار ضرور کیا۔ حرمہ نے مسکرا کر انہیں ہاتھ اٹھا کر سلام کیا اور باغ کی طرف بھاگ گئی۔

اس کا چہرہ تمتمارہا تھا، وہ سیدھی غسل خانے میں جا کرمنہ پر سرد پانی کے چھپکے مارنے لگی۔ جب دل کی دھڑکن ذرا قابو میں آئی بال ٹھیک کرنے کے لیے وہ مریم کے کمرے میں چلی گئی۔ بجلی جلائی تو دھک سے رہ گئی۔

مریم کی نازک پلنگڑی پر سفید جھاگ جیسی آب رواں کی ساڑھی موجیں ماررہی تھی جس کے اتار چڑھاؤ میں پتلون زدہ ٹانگیں غوطہ زن تھیں۔ وہ گرتی پڑتی الٹے پیروں بھاگی دو دو سیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگتی وہ تیزی سے زینے پر سے اترنی لگی۔ آخری سیڑھی پر اس کا پیر دوپٹے میں الجھا اور وہ اوندھے منہ منصور کے پھیلے ہوئے بازوؤں میں گری۔

حرمہ کو بدحواس دیکھ کر منصور بھی پریشان ہو گیا۔

”کیا ہوا؟ “ اس نے اسے سنبھال کر پوچھا۔ حرمہ ایک دم سسک کر رو پڑی اور اپنامنہ اس کے سینے میں چھپا لیا۔ اس قربت نے آگ پر تیل کا کام کر دیا مولسری کے تناور درخت کے نیچے دونو ں پگھل کر بہہ گئے۔

”اف! یہ لڑکیوں کی قمیض کہاں سے کھلتی ہے؟ ہزاروں بٹن لاکھوں ہک! “

ڈرائنگ روم میں نوجوان لڑکے لڑکیاں میوزیکل چیئر کھیل رہے تھے۔ ان کے قہقہے اور تالیوں کی آواز دور کسی دنیا سے آرہی تھی۔ کائنات سنسان تھی۔ سوائے دو دلوں کی دھڑکن کے۔

منصور نے دھندلکے میں حرم کے نیم پیاسے ہونٹ اور چاہت سے سلگتی ہوئی آنکھیں دیکھیں۔ اسے کے کاغذ جیسے سفید گالوں پر موتی اب تک چمک رہے تھے۔ ابلی چاندنی جیسا کنوارا سینہ کنول کے پھولوں کی طرح کانپ رہا تھا۔ ٹھنڈی زمین پر دھکتی ہوئی حرمہ اور چار بڑے پیگ کا نشہ!

آنکھیں۔ معصوم بھوکی آنکھیں انجانی خواہشات سے چھلکتی آنکھیں حرمہ کی آنکھیں۔ منصور کی آنکھیں! اس کی محبوبہ کی آنکھیں! پیارے دوست کی آنکھیں۔

جیسے زور سے کسی نے اسے دھکیل دیا۔ وہ بچوں کی طرح سہم گیا اور کہنیوں میں منہ چھپا لیا۔ وہ شیرجو دوپل پہلے زور و شور سے گرج رہا تھا دبک کر غار میں واپس لوٹ گیا۔ ڈرتے ڈرتے حرمہ نے اس کا ہاتھ چھوا۔ اس کے گالوں پر لمبے لمبے آنسو بہہ رہے تھے۔ سینے میں سسکیاں ابل رہی تھی۔

دیرتک دونوں خاموش سرجھکائے بیٹھے رہے۔ جب سانسیں ٹھہر گئیں حواس واپس آئے تو منصور نے اس کے دونوں سرد ہاتھ اپنی جلتی ہوئی آنکھوں پر رکھ لیے۔
اس حرکت میں وحشیانہ خواہش تھی، نرم و نازک پیار تھا۔

جب دونوں شوروغوغا کی طرف واپس لوٹے تو ایسا معلوم ہوا ساتھ ساتھ کوئی خواب دیکھ کر آئے ہیں۔ عمداً ایک دوسرے سے دور دور، دو نازک بلبلو ں کی طرح الگ الگ کہ کہیں ٹکرا کر پھوٹ نہ جائیں۔ مریم سے آنکھ ملانے کی حرمہ کو ہمت نہیں ہورہی تھی۔ انیس سے اسے گھن آ رہی تھی۔ مگر اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ مریم فرید سے بڑے شرارت بھرے اندازے میں میٹھی میٹھی باتیں کررہی تھیں۔ انیس دونوں کی باگیں تھامے ہانک رہے تھے۔

چھمن معافی مانگ کر جا چکے تھے اور ان کی پیاری امی اور نایاب بوبو بڑبڑارہی تھیں :
”اے میں قربان! کیوں فکر کرتی ہیں؟ چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات! الٹیاں لگیں کہ موئی صاحبزادے کے جی سے اتری“ اور حرمہ سوچ رہی تھی کہ اگر اس گدھے نے حلیمہ کو چھوڑ دیا تو وہ اس کے منہ پر تھوک دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3